انسانیت کی مثال

0

وطنعزیز ہندوستان میںمحبت وبھائی چارے، ہم آہنگی اورگنگاجمنی تہذیب کی قدیم روایت رہی ہے۔اس پر نہ صرف فخرکیا جاتاہے ، بلکہ آئے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے سے اس کی مثالیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سماج میں نفرت کی سیاست خوب ہوتی ہے ، فرقہ وارانہ ماحول کوخراب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اورکچھ لوگ بھی ا س طرح کی سیاست کے بہکاوے میں آجاتے ہیں، لیکن ابھی بھی ملک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے ، جو امن وآشتی سے زندگی گزارناچاہتے ہیں، تاکہ خود بھی ترقی کریں اوردوسرے بھی آگے بڑھ سکیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں جتنی نفرت کی سیاست ہوتی ہے ، اس سے کہیں زیادہ محبت اوربھائی چارے کے فروغ کیلئے کام کیا جاتاہے۔یہ کام مذہب اورذات وبرادری سے اوپر اٹھ کرصرف انسانیت کے نام پر کیا جاتاہے۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ملک میں انسانیت زندہ ہے۔محبت وبھائی چارے اورایک دوسرے کی مدد نہ صرف لوگوں کو جوڑتی ہیں، بلکہ مذہب اور ذات پات کی دیواریں توڑ کر اتحاد اور انسانیت کو فروغ دیتی ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مذہب سے اوپر اٹھ کر مسجد ومندر کیلئے زمین عطیہ کرتاہے ، ان کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔کوئی دوسرے مذہب کی غریب بیٹیوںکو اپنی بہن سمجھ کراسی کے مذہب کے حساب سے تمام رسوم کے ساتھ شادی کراتاہے ، توکوئی دوسرے مذہب کے بے سہارا لوگوں کے آخری رسوم بھی اداکرتاہے ۔کورونا کے دور میں جب لوگ بے یارومددگار ہوگئے تھے ، تو اس کی بے شمار مثالیں دیکھنے کو ملی تھیں۔کچھ لوگوں نے انسانیت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر دوردورجاکر لوگوں کے آخری رسوم اس کے مذہب کے مطابق اداکرنے میں مدد کی ۔سماج نے اس کام کو سراہا اور اس کا اچھاپیغام پورے ملک میں گیا۔اسی طرح کی ایک بڑی مثال بہار کے ضلع کٹیہار میں ہندوکمیونٹی کے نوجوانوں نے قائم کی ، جب انہوں نے ایک غریب مسلم لڑکی کی مدد بھی کی اور اس کی شادی ایک مسلم لڑکے کے ساتھ دھوم دھام سے کرائی ، جو آج علاقے میں ہی نہیں ، پورے ملک میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔

بتایاجاتاہے کہ غریب مسلم لڑکی کے والد کا انتقال ہوچکا تھااوراس کی شادی میں دقت پیش آرہی تھی ۔ایسے میں بھولا پاسوان نام کے ایک سماجی کارکن نے آگے بڑھ کر شادی کی ذمہ داری اٹھائی اوراس نیک کام کوانجام دیتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ بھی ایسے کام کریں ،تاکہ بیٹیاں غریب خاندانوں کیلئے بوجھ نہ بنیں۔ ان کا کہناہے کہ انسانیت ہر مذہب سے بالاتر ہے۔ یہ لڑکی ہمارے لیے بھی بیٹی جیسی تھی اور اس کی شادی کرنا ہمارا فرض تھا۔بھولا پاسوان کے ذریعہ علاقہ میں اس طرح کی پہلی شادی نہیں تھی ، بلکہ اس سے پہلے وہ سماج کی مدد سے ایسی 4غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کراچکے ہیں اورسبھی شادیاں مثالی بنیں۔ جب مذکورہ شادی ہوئی ، تو اس میں ہندواوراسلام دونوں مذہب کے لوگ شریک ہوئے اورسماجی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کامنظر دیکھ کر کافی متاثر ہوئے ۔خود کو ایسے کام کرنے کی اپیل کرنے سے نہیں روک سکے ۔شادی تو ہر جگہ ہوتی ہے۔اپنے گھر میں بھی ہوتی ہے اوردوسروں کے گھر میں بھی ، لیکن ایک غریب لڑکی کی شادی دوسرے مذہب کے لوگ کرائیں ، اس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔جب غریب کی مدد کیلئے مذہب سے اوپر اٹھ کر کئی ہاتھ اس کی طرف بڑھتے ہیں، تو وہ امیروں کی شادی سے بڑی بن جاتی ہے ۔اس شادی میں دولت کی نمائش اوردکھاوا اگرچہ نہیں ہوتاہے ، لیکن ہر طرف محبت، خلوص اوربھائی چارے کاہی منظر ہوتاہے ، جو بہت بڑا سرمایہ ہوتاہے اوراس وقت غریب لڑکی میں تحفظ کا جو احساس پیدا ہوتا ہے ، اس کو ایک غریب ہی سمجھ سکتاہے ، امیر نہیں ۔

اپنے فائدے کیلئے یا اپنے مذہب کیلئے سبھی کام کرتے ہیں ،لیکن دوسروں کیلئے مذہب سے اوپر اٹھ کر جو لوگ کام کرتے ہیں، ان کی تعداد اگرچہ کم ہوتی ہے، پھر بھی ان کی کوششیں نفرت کی سیاست سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایسے نیک کاموں کی کوئی بھی نہ تومخالفت کرپاتاہے اور نہ برائی کرتاہے ۔یہی تو ملک کی گنگاجمنی تہذیب کی خوبی ہے ۔یقیناسماج میں اس طرح کی پہل ہونی چاہئے ۔نفرت کی سیاست کا توڑ اسی میں مضمر ہے ، کیونکہ جہاں انسانیت ہوگی ، سماج کو توڑنے والی قوتیں خود بخود کمزور ہوجائیں گی ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS