پارلیمنٹ ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کیلئے جائے احتساب بھی ہے۔ جہاں حزب اختلاف حکمرانوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر اس کے نیک و بد پر سوال اٹھاتا ہے۔ غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اصلاح کا طالب ہوتا ہے۔عوام کے مسائل پر حکمرانوں کا موقف جاننے کیلئے سوالات کرتاہے، اپنے مطالبات پر دبائو ڈالنے کیلئے دھرنا، احتجاج اور ہڑتال کا بھی حربہ استعمال کرتا ہے۔ حزب اختلاف کا یہ عمل جمہوریت کا حسن سمجھاجا تا ہے اور یہی جمہوریت کی اصل روح بھی ہے۔لیکن ملک کے حکمرانوں کو جمہوریت کا یہ حسن نہیں بھارہاہے اور وہ خود کو ہر طرح کے احتساب و تنقید سے بھی بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔حزب اختلاف کے سوالات کا جواب دینا ان کیلئے کسر شان ہے۔ تنقید، سوالات اور احتجاج و دھرنا سے تو انہیں خدا واسطے کابیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام کی زبان بندی کیلئے نت نئے ہتھ کنڈے اپنانے کے بعد اب ایوان میں بھی یہی تجربہ دہرائے جانے کا انتظام کیاجارہاہے۔
ابھی کل ہی ایوان کیلئے نئی ڈکشنری بنائی گئی ہے اور کئی ایسے الفاظ نکال ڈالنے کا حکم صادر کیا گیاہے جن کااستعمال کرتے ہوئے حزب اختلاب اپنی بات کو موثر انداز میں پیش کرتارہاہے اورآج جمعہ کو یہ اعلان بھی کردیاگیا ہے کہ پارلیمنٹ کے حدود میں دھرنا اور ہڑتال ممنوع ہے۔ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ جن پر پابندی لگائی گئی ہے، ان ہی کے سامنے دست تعاون بھی درازکیاگیا ہے۔ اور یہ سب صرف اس لیے کیاگیا ہے کہ18جولائی سے شروع ہونے والے مانسون اجلاس میں حزب اختلاف کے تیز و تند اور ترش سوالات سے بچا جاسکے۔ اس اجلاس میں حکومت کو مہنگائی، بے روزگاری، معیشت میں گراوٹ جیسے مستقل مسائل کے علاوہ کسانوں سے کیے گئے وعدے کی تکمیل، چین کا گھیرائو، اقلیتوں، دلتوںاور قبائلیوں کے حقوق سمیت روپیہ کی قدر میں تاریخی گراوٹ، سیلاب، صحافیوں اورا نسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری، اگنی پتھ اسکیم اور نوپورشرما تنازع پر حزب اختلاف کے سوالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ان ہی جیسے درجنوں مسائل ایسے ہیں جن پر پہلے حکومت کو ایوان میں ہزیمت جھیلنی پڑی تھی لیکن بجائے اس کے کہ مسائل حل کیے جاتے اب یہ طریقہ نکالاگیا ہے کہ سوالات کی تندی و تیزی کم کرنے کیلئے ان میں سے وہ سوالات ہی ریکارڈ پر نہ لائے جائیں جن میں چند مخصوص الفاظ استعمال کیے گئے ہوں۔
حزب اختلاف اپنے سوالات کو موثر بنانے کیلئے اکثر آمر، بدمعاش، بددیانت، خائن،منافق، چمچہ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرتا آیا ہے اوراس کی پوری تاریخ رہی نیز یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں ہے لیکن اب لوک سبھا سکریٹریٹ نے مانسون اجلاس سے قبل الفاظ کی جو فہرست تیار کی ہے، ان میں اس طرح کے الفاظ غیر پارلیمانی اور قابل گردن زنی قرار پائے ہیں۔ یعنی ایوان کے اندر ان کا استعمال غلط تصور کیا جائے گا اور انہیں ایوان کی کارروائی کے ریکارڈ میں درج نہیں کیا جائے گا۔دلچسپ تو یہ بھی ہے کہ وہ الفاظ بھی ممنوع ٹھہرے ہیں جنہیں عوام الناس اپنی روزمرہ کی بول چال میں استعمال کرتے ہیں جیسے دوہرا کردار، بیکار، چالباز، ڈھونگی، ڈھولکی، گونگی بہری حکومت، شکونی، جئے چند، وناش پرش، چنڈال چوکڑی، پٹھو، دلال، مگر مچھ کے آنسو وغیرہ۔ اب یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دینے کیلئے حکومت نے کون سا معیار اپنایا ہے۔غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست کے اگلے ہی دن پارلیمنٹ کے حدود میں دھرنا و ہڑتال پر بھی پابندی کا اعلان کردیاگیا ہے، اس بابت آج جمعہ کو راجیہ سبھا کے سکریٹری جنرل پی سی مودی کے نئے حکم کے مطابق ممبران پارلیمنٹ اب اس پارلیمانی حدود میں دھرنا یا ہڑتال نہیں کرسکتے ہیں۔
پارلیمنٹ ہو یا ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیاں جمہوریت کا مندر سمجھی جاتی ہیں، وہاںعوام کے منتخب نمائندے عوام کے مفاد میں کام کرتے ہیں، اپنے مطالبات پر دبائو کیلئے پارلیمانی حدود میں کبھی بھوک ہڑتال کرتے ہیں تو کبھی دھرنا بھی دیتے ہیں۔جو سیاسی جماعت حکومت بناتی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ حزب اختلاف کاسامنا کرے، ان کے سوالات کا جواب دے اور ان کے توسط سے سامنے آنے والے عوام کے مسائل حل کرے نہ کہ حزب اختلاف کو خاموش کرنے کیلئے نت نئے طریقے اپنائے۔
آج بھارتیہ جنتاپارٹی حکومت میں ہے، ماضی میں جب وہ حزب اختلاف میں تھی تو اس نے یہی سب کچھ کیاتھا جس پر آج وہ پابندی لگارہی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام ملک کو جمہوریت کے بجائے آمریت سے قریب تر کرے گا۔جمہوری نظام میں حکومت کے ایسے اقدام کی کسی بھی طرح تائید نہیں کی جاسکتی ہے۔
[email protected]
پارلیمانی جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS