’امرت کال‘ یا۔۔۔

0

کانگریس لیڈر اور پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی نے لوک سبھا میں صدرجمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کے دوران جو تقریر کی ہے، اس سے ہوسکتا ہے کہ بہتوں کو اختلاف ہو لیکن اس تقریر پر حکمراں خیمہ جس طرح آتش زیر پا ہوکر راہل گاندھی کو ’ کنفیوزڈ اور بے عقل‘ قرار دے رہاہے وہ سیاسی سفلہ پن کی انتہا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں اعدادوشمار کے حوالے سے مختلف محاذ پر حکومت کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت میں دو ہندوستان بن رہے ہیں ایک امیروں کا ہندوستان ہے تو دوسرا غریبوں کا ہندوستان اور ان دونوں ہندوستان کے درمیان کی خلیج روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ غریب ہندوستان کے پاس آج روزگار نہیں ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے چاہنے کے باوجود حکومت فرار حاصل نہیں کرسکتی ہے۔راہل گاندھی کی تقریر سے ہفتوں قبل یہی بات آکسفیم اور دوسرے عالمی اداروں نے بھی کہی تھی۔ عدم مساوات کی رپورٹ میں آکسفیم نے تو یہ بھی کہہ دیاتھا کہ ہندوستان کے 100 امیر لوگوں کے پاس ہندوستان کے55کروڑ لوگوں سے زیادہ جائیداد ہے۔گزشتہ تین برسوں کے دوران ملک کے 3کروڑسے زیادہ نوجوان اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، آج بے روزگاری 50 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ہندوستان کے 84 فیصد لوگوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے اور وہ تیزی سے غربت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں 23کروڑ سے زیادہ افراد دوبارہ غربت کی کھائی میں گرادیے گئے ہیں۔یہ پالیسی کایک رخاپن ہی ہے جو عدم مساوات کی اس خلیج کو گہرا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ صدر جمہوریہ کے خطاب میں بے روزگاری کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں تھا۔
کانگریس لیڈر نے صنعتی زوال کے بھی حقائق ایوان میں پیش کیے اور حکومت پر الزام لگایا کہ میڈ اِن انڈیا کی بات کرنے والوں نے ملک کی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں اورغیر منظم سیکٹر کو تباہ کر دیاہے۔اسی طرح راہل گاندھی نے ملک میں جمہوریت اورا نسانی حقوق کے حوالے سے بھی حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا کہ بھارتیہ جنتاپارٹی ملک کو ایک ’ راجہ‘ کی طرح چلارہی ہے جہاں جمہور کی آواز کو دبانے کیلئے ملک کے آئینی اداروں کو ہتھیارکے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ الیکشن کمیشن، سی بی آئی اور ای ڈی کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی حزب اختلاف کی آواز دبانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اورپیگاسس کے غیرقانو نی اوزارنے اس استعمال کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی پر بھی کانگریس لیڈر نے سخت گرفت کی اور کہا کہ ناقص خارجہ پالیسی کی وجہ سے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں جو کہ ہندوستان کے مفاد میں بالکل ہی نہیں ہے۔ ہندوستان کا واحد اسٹرٹیجک ہدف چین اور پاکستان کو الگ رکھنا ہے لیکن مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ملک کا یہ ہدف نہ صرف پیچھے چلاگیا ہے بلکہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب آچکے ہیں۔
ہندوستانی پارلیمان کی تاریخ میں ایسے مواقع شاذ ہی آتے ہیں جب حزب اختلاف اپنے صحیح کردار میں نظر آتا ہو۔ 2019 کے عام انتخابات کے بعد غالباً یہ پہلا موقع تھا جب کانگریس نے حزب اختلاف کامطلوبہ کردار اداکیا ہو اوراس کی چبھن حکمراں طبقہ کو بے کل کیے ہوئے ہے۔ وزیرخارجہ جے شنکر، وزیرقانون کرن رجیجو سے لے کر پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی تک اس کا جواب دینے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں۔ جے شنکر جہاں راہل گاندھی کو تاریخ سے سبق لینے کا مشورہ دے رہے ہیں، وہیں کرن رجیجو راہل گاندھی سے معافی کا مطالبہ کر بیٹھے ہیں جب کہ پرہلاد جوشی نے تو ان سب سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر راہل گاندھی کو ’ کنفیوزڈ اور بے عقل‘ تک ٹھہرادیا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس حقیقت کے آئینہ میں دیکھ کر حکومت اپنے داغ دھبے دور کرتی لیکن حکمرانوں کی کبر و نخوت بھلا کب یہ گوارا کرے گی کہ اسے لوگ غلط ٹھہرائیں وہ تو بزعم خود ملک کو ’امرت کال‘ میں لے آئی ہے۔حالانکہ یہ سچائی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پے درپے ہونے والی پالیسی غلطیوں کی وجہ سے ہندوستان عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بناہے۔ ہماری جمہوریت، انتخابی نظام، اقلیتوں سے سلوک، صحت کا ڈھانچہ، غریبوں کی فلاح و بہبود جیسے حساس اوربنیادی محاذ پر ملک کی اجلی پیشانی رسوائیوں کے داغ سے مزین ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی آج کے جس دور کو ’ امرت کال‘ کہہ رہی ہے اسے دنیا کم ہوتی ہوئی جمہوریت اور منتخب آمریت قرار دے رہی ہے۔معاشی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشرتی امتیا ز نے ہندوستان کو دو خیموں میں تقسیم کردیا ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا کرے اور یہ حقیقت سمجھ لے کہ ’کثرت میں وحدت‘ہندوستان کی اصل روح ہے۔سیاسی بازیگری اور لفظوں کے پیچ و خم میں اس حقیقت کو تھوڑی دیر تک الجھایاتوضرورجاسکتا ہے، سیاسی سفلہ پن کے ذریعہ اسے حزب اختلاف کی الزام تراشی بھی کہاجاسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے حکومت تادیر فرار حاصل نہیں کرسکتی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS