امریکہ کی پالیسیاں،امن کا آئینہ یا کچھ اور: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

ایران اور اسرائیل جنگ اب مذہبی رنگ اختیا کر تی جا رہی ہے۔ دونوں طرف سے شدید حملے ہورہے ہیں۔جنگ کا دائرہ روز بہ روز پھلتا جا رہا ہے۔اب اس جنگ میں لبنان بھی کود گیا ہے۔اس نے بھی اسرائیل پر زور دار حملے شروع کر دیے ہیں۔دوسری طرف اسرائیل فلسطین کے بھوکے پیاسے لوگوں کو اب بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ایسے میں امریکہ صرف تماشائی ہوتا تب بھی برا تھا۔ بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہتا رہا۔ عورتوں اور بوڑھوں کی چیخیں گونجتی رہیں۔ایمبولینس اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز پر حملے ہوتے رہے۔مسجد اور مدرسے ملبے کے ڈھیر بنتے رہے۔یہ سب مظالم اسرائیل کرتا رہا لیکن امریکہ خاموش رہا، بلکہ غزہ پر قبضے کے منصوبے بنانے لگا۔

پوری دنیا میں امریکہ باس بنے رہنا چاہتا ہے۔ٹرمپ دوسری مرتبہ امریکہ کے صدر بنے ہیں۔دوران انتخاب انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جنگ کے بجائے دنیا میں امن کی بات کریں گے۔ٹرمپ کو امریکی مسلمانوں نے ووٹ دیے۔انہیں امید تھی کہ ٹرمپ پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم نہیں ہو نے دیں گے۔صدر بننے کے بعد وہ انتخابی وعدے بھول گئے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں،جنگ بندی کرانے کے بجائے،خود بھی ایک پارٹی بن رہے ہیں۔ وہ یعنی امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس کی بات مانے۔ اسے دنیا کی سپر پاور تسلیم کرے۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں امن کا پیغامبر بھی تسلیم کیا جائے۔خواہ اسے کہیں بھی بدامنی اور تشدد دکھانا پڑے۔کسی کو اگر ایٹم بم بنانے سے روکنا ہو تو اس کے لیے امریکہ ہمیشہ تیار ہے۔اسے روکنے کے لیے اسے کسی بھی حد تک جانا پڑے،وہ جاسکتا ہے۔حتیٰ کہ اس کے لیے وہ ہر حربہ( جنگ و جدل،فتنہ و فساد) اپناتا ہے۔اقتصادی پابندیاں اور دوسری پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔پہلے اسے دھمکی دی جاتی ہے،اگر وہ باز نہیں آتا ہے تو پھر اس کے خلاف فوجی کارروائی کی جاتی ہے۔جس میں اس کے دوست ممالک بھی شریک ہو تے ہیں۔ان ہی دھمکیوں کے بیچ ہندوستان اور پاکستان نے ایٹم بم بنا لیے۔دنیا میں ایٹمی طاقت کئی ملکوں کے پاس ہے۔دنیا میں32 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس نیوکلیئر پاور پلانٹس ہیں،جن کا استعمال ایٹمی توانائی حاصل کر نے کے لیے کیا جا تا ہے،جس سے کئی طرح کی چیزیں پیدا کی اور چلائی جاتی ہیں۔ دنیا کے یہ 9 ممالک روس، امریکہ، چین، انگلینڈ، فرانس، ہندوستان، پاکستان، اسرائیل اور جنوبی کوریا ایٹم بم کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان ممالک نے ایٹم بم بنا رکھے ہیں۔دنیا کے یہ 9 ممالک ایٹم بم بنانے اور جتنے چاہیںبنانے کے لیے آزاد ہیں۔دنیا کے تقریباً 180 ممالک نیوکلیئرپاور بننے کی طرف قدم بھی نہیں بڑھا سکتے۔ایسا کرنے پر سب سے زیادہ اعتراض امریکہ کو ہوتا ہے۔وہ دنیا کے فیصلے کرتا ہے،وہ طے کرتا ہے کہ کس ملک میں کس کی حکومت ہوگی۔کون ملک کتنے اور کس قسم کے ہتھیار رکھے گا۔دفاعی بجٹ کتنا ہوگا؟ ہتھیار اس سے خریدے گا۔یہ الگ بات ہے کہ امریکہ اپنی فوج میں استعمال نہ ہونے والے،بیکار اور آوئٹ آف ڈیٹ ہتھیاروں کو بھاری قیمت میں دوسرے ممالک کو بیچ دیتا ہے۔اپنے یہاں بیکار کھڑے طیارے اور جنگی طیارے امریکہ دوسرے ممالک کے سر تھوپ دیتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا جنگ کی تباہیوں میں گرفتار ہے۔ ابھی کچھ ماہ پہلے ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔دراصل کشمیر کے پہلگام میں نہتے اور بے قصور سیاحوں کو آتنک وادی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ 26لوگوں کے شہید ہونے کی خبر ہے۔یہ حملہ پاکستانی گروپ نے کیا۔ہندوستان نے کچھ دن بعد اس کا جواب پاکستان کے دہشت گردی کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کرکے دیا۔پھر کئی دن تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی۔اس جنگ کو رکوانے کا سہرا امریکہ نے اپنے سر باندھا۔اس نے دونوں ملکوں کو دھمکی دی کہ اگر جنگ نہیں روکیں گے تو ان پر بے حساب ٹیرف لگا دیا جائے گا۔کیا ہوا اللہ اعلم بالصواب،لیکن جنگ بندی ہو گئی۔

ادھر ایران اور اسرائیل میں زبردست جنگ چھڑی۔ اسرائیل نے جنگی طیاروں سے ایران پر حملہ کیا۔ایران کے کئی فوجی کمانڈر، اعلیٰ افسران اور عام لوگ مارے گئے۔ ایران نے جواب میں میزائلوں سے حملہ شروع کیا۔شروع میں ایران کے میزائلوں کو اسرائیل کے دفاعی نظام نے مار گرایا۔لیکن کچھ دن بعد اسرائیل کے دفاعی نظام کو ایران نے تباہ کر دیا۔اس کے بعد ایران کی میزائلوں نے اسرائیل میں بہت تباہی مچائی۔امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے ایٹمی ٹھکانوں پر زبر دست بمباری کی۔12دن کی تباہ کن جنگ کے بعد اچانک امریکہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا جبکہ ایران، گلف میں موجود امریکہ کے کئی ٹھکانوں پر میزائلوں سے حملہ کر چکا تھا۔سنا ہے اب پھر اسرائیل اور امریکہ، کسی بھی وقت ایران پر حملہ کرسکتے ہیں۔ بہانہ ایران کا یورینیم جمع کرنااور ایٹمی تجربہ کی طرف پیش قدمی ہے۔ماضی میںاسی بہانے کے تحت امریکہ عراق کو تباہ کر چکا ہے۔

یوکرین اور روس میں دو سال سے جنگ جاری ہے۔ دونوں طرف تباہیاں ہی تباہیاں ہیں۔روس کی ضد ہے کہ یوکرین اس کی مرضی کے بغیر ناٹوکا ممبر کیسے بن گیا۔روس یہ سمجھ رہا تھا بلکہ اس نے کہا بھی تھا کہ وہ یوکرین کو ایک ہفتے ہی میں نمٹا دے گا۔ایک ہفتہ مہینے میں تبدیل ہوا، مہینہ سال میں اور آج دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔یوکرین روس سے مقابلہ کررہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ، انگلینڈ، فرانس وغیرہ یوکرین کی مدد کر رہے ہیں۔امریکہ نے کئی بار روس پر دھونس جمانے کی کو شش کی،مگر سب بے سود ثابت ہوا۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اس نے ایک بار پھر روسی صدر پتن کو انجام سے آگاہ کیا ہے۔مگر اس سے روس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

چین اور تائیوان بھی جنگ کے دہانے پر ہیں۔آئے دن چائنا،تائیوان کو دھمکی دیتا رہتا ہے۔مگر تائیوان بھی چین کی دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔اس کے بر عکس تائیوان جنگ کی تیاری شروع کر رہا ہے۔اپنے ہتھیاروں اور جنگی سامان کی نمائش کر رہا ہے۔ایسا لگتا ہے دونوں کے درمیان بہت جلد جنگ شروع ہوسکتی ہے۔شمالی کوریا اور جنوبی کوریا بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کی جنگ برسوں سے چلی آرہی ہے۔ہزاروں فلسطینی مارے جاچکے ہیں۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیز، اسپتال، رفیوجی کیمپ سب پر اسرائیل بم برسا رہا ہے۔ فلسطین کی ہزاروں ایکڑ زمین حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہے۔ایسے میں امریکہ کیا کر رہا ہے؟ وہ اسرائیل کو جنگ سے باز رکھنے کے بجائے اس کی مدد کر رہا ہے۔یعنی امریکہ طاقت والوں کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ادھر خبر آئی کہ اسرائیل نے سیریا پر حملہ کر دیا۔

امریکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر نے اور ہتھیاربیچنے کا کوئی موقع نہیں گنواتا۔ادھر اسرائیل-ایران جنگ میں جب امریکہ کو لگا کہ ایران بھاری پڑ رہا ہے اور اسرائیل کی بہت تباہی ہو چکی ہے،تب جنگ بندی کی بات کردی۔ایک طرف تو ایران سے جنگ بندی عمل میں آئی ہے لیکن اسرائیل فلسطین پر حملے سے باز نہیں آرہا۔اسے امریکہ کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔بے گناہ فلسطینیوں کا قتل ہو رہا ہے،ایسے میں امریکہ کہاں ہے؟ وہاں اس نے جنگ بندی کیوں نہیں کرائی۔دنیا میں امن پھیلانے کی اس کی کوششیں کہاں ہیں؟ ٹرمپ کو امن کا نو بل انعام بھی چاہیے اور یہ انعام مل جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔دراصل پاکستان اور اسرائیل نے ٹرمپ کا نام امن کے لیے نوبل انعام کے لیے پیش کیا ہے۔پتہ نہیں ٹرمپ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کون کون سے اقدام کیے ہیں؟آج پوری دنیا میں امن کا قتل ہورہا ہے اور امریکہ اس میں کہیں بالواسطہ اور کہیں بلا واسطہ شریک رہا ہے۔وہ تو ایسے مواقع پرجنگی ہتھیار فروخت کر نے کا کام کر تارہا ہے۔ کیا یہی اس کی پالیسیاں ہیں؟ روس کے بعد اب چین بھی امریکہ سے خوف نہیں کھاتا۔یہ ممالک ہر معاملے میں امریکہ کو ٹکر دے رہے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS