امریکہ کی ناقابل فہم پالیسی

0

گلوبلائزیشن کے اس دور میں ملکوں کے تجارتی تعلقات کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن افغان اور عراق جنگ کے بعد کے اس دور میں کوئی بھی ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پوری دنیا پر حکمرانی کرسکے لیکن امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی لیڈروں کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی بھی یہی سمجھتے ہیں، دنیا میں جو ہوگا، امریکہ کے ہی چاہنے سے ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کئی چیزیں امریکہ کے چاہنے سے ہوتی ہیں، کیونکہ اقتصادی اور دفاعی طور پر وہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے، اس کا دائرۂ اثر کافی وسیع ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ کافی مقروض ہے، یوکرین اور غزہ کی جنگوں نے دنیا کے حالات بدل دیے ہیں، عالمی برادری کے امریکہ کو دیکھنے کا نظریہ بدل دیا ہے۔ اب صدر امریکہ کی باتوں کی وہ اہمیت نہیں رہ گئی ہے جو کبھی امریکی صدور کی باتوں کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اس کی ایک وجہ ہے اتحادی ملکوں اور حریف ملکوں سے کسی حد تک یکساں سلوک، دوسری وجہ ہے کہ یوکرین اور غزہ کی جنگوں پر ان کا غیر واضح موقف ۔ امریکی صدر ٹرمپ کبھی روسی صدر ولادیمیر پوتن کی تعریف کرنے لگتے ہیں، کبھی ان سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی غزہ جنگ ختم کرانے کی امید بندھاتے ہیں، کبھی امید توڑ دیتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟ یہ مانا کہ روس ایک طاقتور ملک ہے، یوکرین جنگ رکوانا امریکہ کے لیے آسان نہیں ہے۔ اسی لیے روس کو امریکہ اور اس کے اتحادی تنہا کر دینا چاہتے ہیں تاکہ روس سے جنگ لڑنا ان کے لیے آسان ہو جائے اور انہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ روس سے تعلقات رکھنے کے باوجود کس ملک نے یوکرین جنگ سے خود کو الگ رکھا ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ غزہ جنگ رکوانے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کس نے روکا ہے؟ وہ غزہ جنگ کیوں نہیں رکوا پا رہے ہیں؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ تو چلتی رہے، ان کے لیڈران جنگ مخالف اچھے اچھے بیانات دیتے رہیں، امداد کے منتظر فلسطینی جانیں گنواتے رہیں مگر یوکرین جنگ ختم ہو جائے؟ یوکرین جنگ ختم کرانے سے کیا زیادہ دلچسپی اس خدشے کی وجہ سے ہے کہ اس جنگ کی کہیں توسیع نہ ہو جائے اور یوروپ کہیں پھر سے عالمی جنگ کا میدان نہ بن جائے؟ بات اگر یہ نہیں ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے لیڈروں کو اس سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔

کیسی عجیب سی بات ہے کہ ایک طرف امریکہ کے ری پبلکن سینیٹر یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کی پارٹی کے سینیٹر لنڈسے گراہم چین، ہندوستان اور برازیل کو متنبہ کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے، ’میں چین، ہندوستان اور برازیل سے یہی کہوں گا کہ اگر آپ اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے سستا روسی تیل خریدتے رہیں گے تو ہم آپ کو برباد کر دیں گے اور آپ کی اقتصادیات کو برباد کر دیں گے۔‘دوسری طرف خبر یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اکتوبر میں چین کے دورے کا امکان ہے۔ یہ خبر ’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ کے حوالے سے آئی ہے کہ ’ امریکی صدر ممکنہ طور پر اس سال خزاں میں جنوبی کوریا میں ہونے والے ’’ایپک‘‘ سربراہ اجلاس میں شرکت سے قبل چین کا دورہ کر سکتے ہیں۔‘ وہ چینی سربراہ شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔ اب لنڈسے گراہم کی باتوں کو اہمیت دی جائے یا ممکنہ چینی دورے کی امریکہ کے صدر ٹرمپ کی خبر کو یا دونوں کو؟ لنڈسے گراہم کا چین اور برازیل کے ساتھ ہندوستان کو شامل کرنا کچھ عجیب سی بات ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی دنیا کے واحد لیڈر ہیں جنہوں نے روسی سربراہ ولادیمیر پوتن سے یہ بات کہی تھی کہ یہ یدھ کا نہیں، بدھ کا وقت ہے۔ وزیراعظم مودی روس گئے اور یوکرین بھی گئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکی لیڈر لنڈسے گراہم ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات کی اہمیت سمجھ نہیں پائے ہیں، ورنہ وہ اس طرح کا بیان نہیں دیتے اور اگر دیتے تو اس میں ہندوستان کا نام شامل نہیں کرتے۔ فی الوقت لنڈسے گراہم کو اس بات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ امریکہ پر قرض بڑھتا کیوں جا رہا ہے؟ اس پر سے قرض کا بوجھ کم کیسے ہو؟ امریکہ کا امپورٹ، ایکسپورٹ سے زیادہ کیوں ہے؟ غزہ جنگ کو نہ رکوا پانے کے اس پر کیا اثرات پڑے ہیں؟ ان کے متذکرہ ملکوں کو انتباہ دینے سے امریکہ کا بھلا نہیں ہوگا۔ وہ اگر چاہتے ہیں کہ امریکہ کا بھلا ہو تو انہیں یوکرین جنگ کے ساتھ غزہ جنگ کو بھی ختم کرانے کی سنجیدہ کوشش کرنی پڑے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS