ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
یوکرین کے معاملے میں امریکہ اور ناٹو کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے اپنی بے عزتی کرائی ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کیوبا، ویتنام اور افغانستان کی دھول چاٹ چکا ہے۔ روسی رہنما ولادیمیر پوتن نے دنیا کے سب سے طاقتور اور ہر لحاظ سے مضبوط فوجی گروپ کو چاروں خانے چت کر دیا ہے۔ وہ ممالک جو روس سے الگ ہو کر ناٹو میں شامل ہو گئے تھے، اب ان کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے ہوں گے۔ انہیں بھی یہ ڈر لگ رہا ہوگا کہ یوکرین کے بعد اب کہیں ان کی باری تو نہیں آرہی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ بیان کتنا شرمناک ہے کہ ان کی افواج صرف ناٹو ممالک کی حفاظت کریں گی۔ وہ اپنی فوجیں یوکرین نہیں بھیجیں گے۔ پوتن نے پہلے یوکرین کے تین ٹکڑے کردیے اور پھر انہوں نے وہاں اپنی ’امن فوج‘بھیجی۔ اگر ناٹو اقوام ایماندار اور مضبوط ہوتیں تو وہ یوکرین کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے فوری طور پر اپنی فوجیں وہاں بھیج دیتیں لیکن ان کا بغلیں جھانکنا پوری دنیا کو حیران کر گیا۔ مجھے تو اسی وقت محسوس ہوا کہ امریکہ اور ناٹو اب تک جو دھمکیاں دے رہے تھے، وہ خالص بے چارگی کے سوا کچھ نہیں تھیں۔ امریکی انٹلیجنس ایجنسی نے پہلے ہی دعویٰ کیا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری کرچکا ہے۔ اس لیے بائیڈن اور ان کے وزیر دفاع یہ نہیں کہہ سکتے کہ یوکرین پر اب روسی حملہ اچانک ہوا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا یہ نہیں کہ امریکہ اور ناٹو گیدڑ بھبکیاں دیتے رہے؟ اس کے دور رس اثرات یہ بھی ہیں کہ امریکہ نے روس کو نئی عالمی طاقت بننے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ یوکرین تو سمجھ رہا تھا کہ امریکہ اس کا محافظ ہے لیکن امریکہ نے ہی یوکرین کو مروایا ہے۔ اگر امریکہ اسے نہ چڑھاتا تو اس کے صدر وی زیلینسکی ہر حالت میں پوتن کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاہدہ کر لیتے اور یہ تباہ کن نوبت آتی ہی نہیں۔
جرمنی اور فرانس کے رہنماؤں نے ثالثی کی کوشش ضرور کی لیکن وہ کوشش ناکام ہی ہونی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک ناٹو کے اہم ستون ہیں اورناٹو یوکرین کو اپنا رکن بنانے پر آمادہ ہے جو کہ اس جھگڑے کی اصل بنیاد ہے۔ اس سارے تنازع میں بہترین ثالث کا کردار ہندوستان ادا کر سکتا تھا لیکن دونوں فریقوں سے وہ صرف امن کی اپیل کرتا رہا جو خالص لیپاپوتی یا خانہ پری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
میں گزشتہ کئی ہفتوں سے کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان کو کوئی پہل ضرور کرنی چاہیے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے پاس حکومت یا اپوزیشن میں کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو اتنی بڑی پہل کر سکے۔ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے پوتن سے بات کی، یہ اچھا کیا لیکن یہی کام وہ بائیڈن کے ساتھ بھی ایک ماہ قبل کرتے تو اس کی کچھ قیمت ہوتی۔ اب تو ہندوستان کا قومی مفاد اسی میں ہے کہ ہمارے20,000 طلبا اور سفارت کار یوکرین میں محفوظ رہیں اور ہم تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں کو برداشت کر سکیں۔
(مصنف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]