خواجہ عبدالمنتقم
سفرنامہ محض سیر و سیاحت کے حالات درج کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ان ممالک و مقاما ت کا، جہاں جہاں مسافر گیا ہے اور جو جو اس نے دیکھا، پرکھا اور محسوں کیا ہے، اس کا مبنی بر حقیقت اظہار ہے یعنی شرح مفصلی از مسافرت خود بدید۔
آغاز سفر:ہم نیم شب کی تاریکی میںسفر امریکہ کے آغاز کے لیے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے کی چمچماتی روشنی میںاوردہلی شہر کی ان روشنیوں کے جھرمٹ میں جو کہکشاں کی طرح جگ مگ کر رہی تھیں، KLM Airlines سے براستہیمسٹرڈم امریکہ جانے کے لیے سوار ہوئے۔فلائٹ روانگی کے لیے بالکل تیار تھی۔ مسافر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ اچانک پرکشش و جاذب نظر یونیفارم میں ملبوس ایک خوب صورت ایئر ہوسٹس نمودار ہوئی۔اس نے مسافروں کو موبائل بند کر نے اور حفاظتی پیٹیاں باندھنے کے لیے کہا۔کچھ لوگ تو پیٹیاں بڑے آرام سے باندھ لیتے ہیں مگر نئے نئے ہوائی مسافر کنکھیوں سے دوسرے مسافروں کو دیکھ کر ہی اپنی پیٹی باندھتے ہیں۔ اس کے بعد جہاز کی بیشتر بتیاں بجھا دی گئیں، جہاز تھوڑی دیر رن وے پر گھومتا رہا پھر کسی برہم شخص کی طرح غرایا، ایک جھٹکے میں اوپر اٹھا اور فضائی حدود میں داخل ہوکر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ہمارے ساتھ ہمارے بیٹے، بیٹے کی بہو اور دو ننھے منے پوتی پوتا تھے۔ ہم ضعیفی کے سبب فلائٹ میں کافی بور ہوئے۔تقریباً چوبیس گھنٹہ کا سفر طے کرنے کے بعدہم واشنگٹن کےDulles Internarntional Airport پہنچے۔
امریکی معاشرہ رنگا رنگ،کثیر نوعی،کثیر لسانی،کثیر ثقافتی و کثیر نسلی ہے:اس کی320 ملین کی آبادی میں امریکہ کے اصل باشندے، لاطینی امریکی،انگریز مہاجرین اور دنیا کے تمام ممالک سے بشمول ایشیا و افریقہ سے ہجرت کرکے آنے والے شامل ہیں،اسی لیے امریکی کلچر کو ’’”Melting Pot کہا جاتا ہے۔ ترمیم اول میںسب کو مذہبی آزادی کی ضمانت د ی گئی ہے سوائے Blue lawsکے یعنی وہ قوانین جن کی رو سے مذہبی وجوہات کی بنیاد پر معدودے چند مذہبی سرگرمیوں پرپابندی لگائی گئی یا ملک کے مفاد میں لگائی گئی معقول پابندیاں۔ کسی بھی مذہب کو سرکاری مذہب قرار نہیں دیا جاسکتا، کسی ایک مذہب کے مقابلے میں دوسرے مذہب کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ مذہب کو سیاست سے الگ رکھا گیا ہے۔
٭ امریکہ میں تمام مذاہب کے ماننے والوںکے باہمی تعلقات نہایت خوشگوار ہیں:کبھی کبھی کچھ جنونی لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر نازیبا حرکتیں کر بیٹھتے ہیں لیکن انہیںان کی غیرقانونی سرگرمیوں کی سزا ضرور ملتی ہے خواہ ان کا واسطہ کسی بھی مذہب سے ہو۔ ہم نے یہاں باہمی اتحاد کے لیے مارچ بھی نکلتے دیکھے ہیں۔
٭امریکہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے تعلقات: امریکہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان بظاہر کوئی تنازع نہیں، ان کے ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔ دل کا حال تو خدا ہی جانتا ہے۔ البتہ حلال و کوشرگوشت کی خریداری کے لیے دونوں کو مخصوص اسٹورز تک جانا پڑتا ہے۔ان کی کمپنیوں میں مسلم اسٹاف کو نماز ادا کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ اب رہی بات کچھ لوگوں کے تلخ تجربات کی توہمیں یہ حق نہیں کہ ہم امریکی عوام کو مکمل طور پر فرشتہ صفت ثابت کریں۔
٭امریکہ میں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں (خاص کر پنجابی ہندو اور پنجابی مسلمان) کے مابین قربت:امریکہ میں رہنے والے ہندوستانی اور پاکستانی اپنی زبان، لباس، کھان پان، مزاج، مذاق، شکل و صورت،انداز گفتگو وغیرہ کے باعث ایک دوسرے کے بہت قریب آجا تے ہیں۔وہ دیسی سامان ا نڈین یا پاکستانی اسٹور سے ہی خریدتے ہیں۔ ہم نے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں ایک بہت بڑا فرق یہ دیکھا کہ ہندوستانی کفایت شعار ہوتے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ بچت کرکے اپنے وطن ہندوستان بھیجنا چاہتے ہیں لیکن پاکستانی بہت فیاض اور خرچیلے ہوتے ہیں۔
٭ امریکی صاف گو،خود سر،باشعور اور خود اعتماد ہوتے ہیں: وہ صاف صاف آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی اور انوکھی خوبی یہ ہے کہ وہ گفتگو کے دوران آپ کی مکمل ریڈنگ کر لیں گے اور آپ سے وہ سب کچھ اگلوا لیں گے جو وہ چاہتے ہیں لیکن آپ ان کی مکمل ریڈنگ نہیں کر سکتے۔
انفرادیت، یکتائی و پرائیویسی: امریکیوں کو بچپن سے ہی آزاد رہنے اور کسی پر منحصر نہ رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ بچوں تک کو والدین کے ساتھ سونے کی اجازت نہیں۔اسی لیے خونی رشتوں میں بھی وہ حرارت نہیں پائی جاتی جو ہمارے ملک میں ہے۔ ماں، باپ، میاں بیوی، بچے سب آزادانہ فرد واحد کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔وہ اپنی ہر طرح کی نجی زندگی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے اور دوسروں سے بھی زیادہ بے تکلف نہیں ہوتے۔ صرف ہائے ہیلو رکھتے ہیں۔
مسابقت:امریکی ہر شعبۂ حیات میں ہمیشہ دوسروں سے سبقت لینے کوشش کرتے ہیں۔امریکہ دنیا کے لیے ثقافتی سفیر کا رول ادا کر رہا ہے۔ شعبۂ کامرس کے مطابق دنیاکا ایک تہائی میڈیا اور Entertainment Industryاس ہی کی دین ہے۔
٭لباس اور کھان پان: عام طور پر یہاں لوگ ہیمبرگر، ہوٹ ڈوگ، پوٹیٹوچپس، میکرونی، چیز، گوشت، چکن، Collardgreens, Black-eyed Peas,اور کورن بریڈ وغیرہ کھاتے ہیںلیکن دیگر ممالک کے لوگ امریکی ڈشزکے ساتھ ساتھ اپنی پسند کا کھانا بھی کھاتے ہیں۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعدمسلم کمیونٹی سینٹر کے قریب ایک ہوٹل میں کھاناکھایا کرتے تھے۔وہاں ہم نے کئی بارامریکیوں کو بھی ہندوستا نی کھانا کھاتے ہوئے دیکھا۔ امریکی غیر رسمی پن میں یقین رکھتے ہیں۔وہ آرام دہ لباس پہنتے ہیں جیسے جین، ٹی شرٹ وغیرہ۔ٹائی کا بھی خاص موقعوں پر استعمال کرتے ہیں۔ خواتین سلیکس وغیرہ اورآرام دہ جوتے پہنتی ہیں۔
٭امریکی کھیلوں کے شوقین ہیں مگر تضیع وقت کے قائل نہیں۔ انہیں کرکٹ پسند نہیں چونکہ اس میں کافی وقت ضائع ہوتا ہے حالانکہ اب اس کی شروعات ہوچکی ہے۔وہ فٹ بال، بیس بال،باسکٹ بال،ہاکی وغیرہ کھیلتے ہیں۔
تفریح اور چھٹیاں منانے کا طریقہ کوئی امریکیوں سے سیکھے:بیشتر امریکی Weekendمیں دو یا تین دن کا کوئی نہ کوئی تفریحی پروگرام ضرور بناتے ہیں۔ وہ Barbecue کے بہت شوقین ہیں۔
کچھ معاملات میں دقیانوسی سوچ:وہ کچھ معاملات میں توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد ہیں۔Halloween کے موقع پر بھوت پریت کو بھگانے کے لیے ایک مخصوص ڈراؤنا لباس پہنتے ہیں اور آگ جلاتے ہیں۔ امریکی اپنے ملک کے دیگر اہم دن بھی بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں جیسے یوم شکرانہ،یوم مسیح،بڑا دن،یوم صدر، یوم شہداء، یوم محنت کش وغیرہ۔
نظام تعلیم:امریکہ میں سرکاری اسکولوں، جنہیں Elementary Schools کہا جاتا ہے اور جہاں مفت تعلیم دی جاتی ہے، سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار بہت اچھا ہے۔وہاں تعلیم کی واحد غرض مختلف شعبۂ حیا ت کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ Exposure ہے۔اسکول کی بس بچوں کو گھر کے قریب اسٹینڈ سے لے کر جاتی ہے اور واپسی میں پہنچاتی ہے۔ اسکول آمد پر انہیں پرنسپل اور وائس پرنسپل یا ڈائریکٹر اسکول کے دروازے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔نصاب انتہائی معیاری مگر کم ہوتا ہے۔بچوں پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ اسکول والے بچوں کو تفریح طبع کے لیے کبھی کبھی باغات وغیرہ میں لے جاتے ہیں۔ وہاں بچے کسانوں کو کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ آزادانہ گھومتے ہیں،باغات سے پھل لے کر آتے ہیں۔ ان سے اس کی کوئی قیمت بھی نہیں لی جاتی۔ان سے پکنک یا کسی تقریب کے بہانے کوئی پیسے نہیں لیے جاتے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکر یٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]