امریکہ کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امریکہ ہی سپر پاور کیوں ہے اور یہ سمجھ لینے پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ امریکہ کا نہ کوئی مستقل دوست ہے، نہ کوئی مستقل دشمن۔ اس کے لیے ہمیشہ سے ہی دوستی اور دشمنی سے بڑھ کر یہ بات اہمیت کی حامل رہی ہے کہ وقت نے کون سی کروٹ لی، حال نے کیا صورت بدلی، نئے تقاضے کیا ہیں،اس لیے امریکہ کی وزارت دفاع کی طرف سے پاکستان کو ایف16 طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے آلات اور سروسز میں مدد فراہم کرنے کا اعلان کچھ عجب نہیں ہے، البتہ یہ ہندوستان کے لیے ضرور تشویش کی بات ہے، کیونکہ ہندوستان سے پاکستان کی دشمنی کوئی چھپی ہوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس سے امریکہ بھی واقف ہے۔ اس کے باوجود اس نے ایف-16 طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے آلات اور سروسز کے لیے 45 کروڑ ڈالر کے معاہدے کو منظوری دے دی ہے۔ اس سے پاکستان کے لیے ایف-16 کے پرزہ جات کا حصول آسان ہوجائے گا، ان طیاروں میں تکنیکی مسئلوں کو دور کرنے میں دشواری نہیں رہے گی اور پرانے طیاروں کو بھی جدید بنانا سہل ہوجائے گا۔ اس سے پاکستان دفاعی طور پر اور زیادہ مستحکم ہوگا مگر واشنگٹن ڈی سی میں منگل کو ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایف-16 طیاروں سے متعلق ایک پروگرام پہلے سے موجود ہے اور یہ کوئی ہتھیاروں کی فراہمی کا نیا پروگرام، نیا منصوبہ یا نیا نظام نہیں ہے۔‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پاکستان کا ایف-16 پروگرام اس کی دہشت گردی کے اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے اور یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے کہ خطے میں دہشت گردی کے خطرات موجود رہیں، لہٰذا پاکستان کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کی جو صلاحیت ہے، وہ سب کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔‘ لیکن سوال یہ ہے کہ انٹونی بلنکن کی بات مانی جائے یا امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی۔ ٹرمپ نے جنوری 2018میں کہا تھا کہ ’ہم دہشت گردوں کو افغانستان میں ڈھونڈھتے رہے اور انہوں نے (پاکستانیوں نے) انہیں محفوظ پناہ گاہ مہیا کرائی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ امریکہ نے دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر فراہم کرائے مگر انہوں نے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا، وہ ہمارے لیڈروںکو بیوقوف سمجھتے رہے۔‘ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دور کا امریکہ نہیں ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے، بالکل! ٹرمپ کے دور میں امریکی فوجی افغانستان میں موجود تھے۔ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں تھی مگر اب وہاں امریکہ کے فوجی نہیں ہیں اور امریکہ بظاہر طالبان سے دوری بھی بنائے رکھنا چاہتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے توسط سے طالبان سے رشتہ بھی قائم رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس نے اگر ایسا نہیں کیا تو طالبان پوری طرح روس اور چین کے دائرۂ اثر میں چلے جائیں گے اور یہ اس خطے میں اس کی پالیسی کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا جبکہ یہ سوال جواب طلب ہے کہ پاکستان کو اگر امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا تو کیا وہ چین کو چھوڑ پائے گا؟ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی بہتر ہوگا کہ ہندوستان،روس سے رشتہ مستحکم رکھے اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ حکومت ہند ایسا کر بھی رہی ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر ملک اپنے مفاد کا خیال پہلے کرتا ہے اور پھر دیگر ملکوں، خاص کر اپنے اتحادیوں کے مفاد کا خیال کرتا ہے مگر امریکہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مفاد کا خیال کرتا ہے، اس کے بعد بھی اپنے مفاد کا خیال کرتا ہے اور سب سے آخری میں بھی اپنے ہی مفاد کا ہی خیال کرتا ہے۔ اس کے اپنے مفاد کا خیال کرتے ہوئے اگر کسی ملک کا یا کئی ملکوں کا بھلا ہوجاتا ہے تو یہ دوسری بات ہے۔ مثلاً: دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے ’ٹرومین ڈوکٹرین‘ متعارف کرائی تھی۔ اس سے ترکی اور یونان جیسے ملکوں کو فائدہ ہوا مگر اس کا مقصد سوویت یونین کے دائرۂ اثر کو پھیلنے سے روکنا تھا۔ اسی طرح امریکہ نے ’مارشل پلان‘ متعارف کرایا۔ اس کا بظاہر مقصد مغربی یوروپ کے ملکوں کی اقتصادی مدد کرنا تھا مگر ’مارشل پلان‘ متعارف کرانے کے ٹھیک ایک سال بعد ناٹو وجود میں آگیا اور یہ بات ناقابل فہم نہیں رہی کہ اس پلان کا اصل مقصد کیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جوزف اسٹالن، فرنک لین ڈی روزوِلٹ اور ونسٹن چرچل ’بگ تھری‘ کہلاتے تھے مگر جنگ کے آخری دنوں میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں،ہیروشیما اور ناگاساکی، پر ایٹمی حملہ کرکے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی کہ بس وہی سپرپاور ہے تو اس نے سوویت یونین کا خیال نہیں کیا تھا۔ آج بھی بات اگر اپنے مفاد کی ہوگی تو امریکہ اپنا ہی خیال کرے گا، ایف-16 طیاروں سے متعلق معاہدے سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
[email protected]
امریکہ: خیال صرف اپنے مفاد کا!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS