غزہ: حماس کے سینیئر رہنماوں میں سے ایک اسامہ حمدان نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں ہر روز جو قتل عام کر رہا ہے اس کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے روزانہ ہونے والے قتل عام کی ذمہ دار امریکی انتظامیہ ہے جس نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
حمدان نے کہا کہ ہم امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ سے کہتے ہیں کہ آپ حملے کے بعد غزہ پر حکمرانی کے خواب کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں، مزاحمت اور ہمارے لوگ غالب آئیں گے، ماضی سے سبق سیکھیں۔
اسامہ حمدان نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکیوں کو رہا کر دیا جائے گا جیسا کہ ہم نے کہا کہ وہ مہمان ہیں لیکن ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سازگار حالات فراہم کیے جائیں اور جہاں تک تمہارے فوجیوں کا تعلق ہے، تم جانتے ہو کہ اس کی قیمت کیا ہے۔
اسرائیل کے اس دعوے کے بارے میں کہ حماس غزہ کی پٹی میں اسپتالوں کے نیچے سرنگیں اور کمانڈ سینٹر بنا رہی ہے حمدان نے کہا کہ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کو غزہ کے تمام اسپتالوں کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہاں موجود اسپتالوں کے اندر حماس کے رہنما روپوش نہیں ہیں۔
حماس کے منتظمین میں سے ایک باسم نعیم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین مشرق وسطیٰ اور اس کے منتظمین غزہ میں انسانی تباہی کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے قابض افواج کے احکامات کے آگے سر تسلیم خم کیا۔
نعیم نے کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے، جو کہ غزہ کے 70 فیصد سے زیادہ کی حفاظت کہ ذمہ دار ہے، لاکھوں پناہ گزینوں کے تئیں اپنی ذمہ داری کو ترک کر دیا ہے اور مہاجرین کو ان کی بنیادی ضروریات جیسے پانی، خوراک، ادویات اور رہائش سے محروم کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: مودی حکومت اسرائیلی کمپنیوں میں 1 لاکھ مزدوروں کو بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی ہے
نعیم نے یو این آر ڈبلیو اے کے رویے کو قابض افواج کے ساتھ ملی بھگت قرار دیا اور کہا کہ یہ ادارہ دنیا اور تاریخ کے سامنے جو کچھ ہوا اس کے قانونی، انسانی اور اخلاقی نتائج کا ذمہ دار ہے۔
بین الاقوامی برادری سے خطاب کرتے ہوئے نعیم نے کہا کہ اسرائیل کے مسلط کردہ اقدامات، جو بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے خلاف ہیں ان کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے۔
(یو این آئی)