پروفیسر اسلم جمشید پوری
عجیب دور آگیا ہے۔ جھوٹ بول کر بھی انسان سچا کہلا تا ہے۔غلط کام کرتا ہے اور وہائٹ کالر بنا رہتا ہے۔دنیا بھی ایسے شخص کو شریف اور اچھا مانتی ہے۔کیوں کہ دولت اور طاقت انسان میں یہ سارے اوصاف پیدا کر دیتی ہے۔ اصل میں آج دولت اور طاقت جس کے پاس ہوتی ہے، وہ ’بڑا‘ کہلاتا ہے۔سماج میں اس کی عزت و توقیر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں پروین شاکر کا ایک شعر دیکھیں:
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
اس شعر کے مصداق آج کل ٹرمپ یعنی امریکہ کا حال ہوگیا ہے۔اس کے سر پر جنگ روکنے کی دُھن سوار ہے۔ ہندوستان پاکستان کے درمیان کی جنگ ہو،ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین جنگ انہوں نے رکوائی ہے۔ اس سیزفائر کے پیچھے ان کی ٹیرف کی دھمکی تھی،لیکن یہ اعتراف ہندوستان تو ہندوستان پاکستان نے بھی نہیں کیا۔ الٹے جنگ بند کرکے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی بری طرح پھنس گئے ہیں۔حزب ِ اختلاف آج تک اس بات کو ماننے کو تیار نہیں۔اور اگر یہ بات صحیح بھی ہے تو یہ مودی کی بڑی ہار ہے۔مودی کی خاموشی،حزبِ اختلاف کے حملے اور ٹرمپ کا بار بار خود کو دہرانا جاری ہے۔اسی بیچ ٹرمپ نے ہندوستان پر 25 کے بجائے 50 فیصد ٹیرف لاگو کر دیا ہے جس سے ہندوستان کی حکومت اور تاجروں میں زبردست کہرام مچ گیا ہے۔لیکن امریکہ کو پتہ نہیں کہ جب کوئی ایک راستہ بند ہوتا ہے تو دوسرے کئی دروازے وا ہوجاتے ہیں۔ یہ ٹیرف امریکہ نے اپنی بے جا ضد کی وجہ سے روس سے تیل خریدنے پر لگایا۔ہندوستان نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے کئی اور ملکوں میں برآمد شروع کر دی۔ آخر کار امریکہ کو جھکنا پڑا اور کل تک ہندوستان سے بے حد ناراض ٹرمپ نے ہندوستان کو اپنا دیرینہ دوست بتایا۔ ٹیرف بھی کم ہو جا ئے گا۔
ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کی جنگ بند کرائی۔یہ بات صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ امریکہ بھی اسرائیل کے ساتھ ایران پر حملہ آور ہوا تھا۔اور جب امریکہ کو لگا کہ ایران کسی طاقت کے آگے جھکنے والا نہیںاور اس جنگ میں اسرائیل کا پلڑا کمزور پڑ رہا ہے،ایران کے حملوں سے اسرائیل کی تباہی میںروز افزوں اضافہ ہو رہا ہے،اسرائیل کے عوام جنگ طویل ہو نے کی صورت میں بغاوت کر سکتے ہیں،یہی نہیں ایران نے گلف میں امریکی فوجی ٹھکانوں پر بھی میزائل داغے تو مجبوراً امریکہ نے دونوں کے ما بین مفاہمت کرائی اور وقتی طور پر جنگ بندی ہوگئی۔سنا ہے کہ ایک بار پھر اسرائیل،امریکہ کے تعاون سے ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ایران بھی خاموش نہیں وہ شدید ترین جواب دینے کی تیاری میں ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی ضرور ہے مگر دونوں سرد آگ میں جل رہے ہیں۔کبھی بھی جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔اس بار جنگ آر پار کی ہو سکتی ہے۔
اب ٹرمپ روس اور یوکرین کی جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ٹرمپ کی ہائی وولٹیج ملاقات ہو چکی ہے۔ملاقات میں یہ امید کی جارہی تھی کہ امریکہ حاوی رہے گا اور جنگ بندی کے لیے روس بلاشرط یا پھر چھوٹی موٹی شرائط کے ساتھ راضی ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا، روس اس ملاقات میں حاوی رہا۔جنگ بندی کے لیے اپنی شرائط پر راضی ہوا۔ایسی شرائط جو یو کرین اور اس کے شہریوں کو کبھی قبول نہیں۔یوکرین کا وقار دائو پر تھا۔امریکہ نے یوکرین پر شرائط ماننے اور جنگ بندی کرنے کا دبائو بنانا شروع کیا۔لیکن ہر ملک کا وقار ہوتا ہے،عزت ہوتی ہے،خواہ وہ دنیا میں کتنا ہی کمزور ہو یا غریب۔یو کرین بھی اپنی ضد پر قائم ہے اور وہ روس یا امریکہ کے کسی دبائو میں نہیں آنے والا۔اسے اپنی عزت نفس سے پیار ہے۔
اس پوری کہانی کا کلائمکس یہ ہے کہ امریکہ پوری دنیا میں جنگ بندی کرا رہا ہے لیکن اسرائیل-فلسطین جنگ پر اس کی کوئی نظر نہیں ہے۔ٹرمپ خود کو امن نوبل ایوارڈ کے لیے اہل ہی نہیں،سب سے زیادہ حق دار مانتے ہیں۔ماضی میں پاکستان اور اسرائیل نے ٹرمپ کے نام کی سفارش بھی کی ہے اور ہو سکتا ہے ’امن کا نوبل ایوارڈ‘ ٹرمپ کو مل بھی جائے، لیکن کچھ دیر کے لیے سوچئے،کیا واقعی ٹرمپ اس ایوارڈ کے حق دار ہیں؟ یا دنیا میں انتشار اور بد امنی پھیلانے کے لیے امریکہ ذمہ دار ہے؟ٹرمپ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں؟ بے قصور فلسطینیوں کا خون،خون نہیں ہے؟ کیا امریکہ اسرائیل کی مدد نہیں کر رہا؟ کیا امریکہ نے فلسطین کو گریٹر اسرائیل بنانے کا منصوبہ نہیں بنا یا تھا؟کیا امریکہ اسرائیل کو فلسطین پر حملہ کرنے سے نہیں روک سکتا؟ کیا اسرائیل اس بات کو نہیں مانے گا؟ امریکہ کا یہ عمل مسلم ممالک کو فلسطین کی مدد کرنے کے لیے ضرب نہیں لگا رہا۔آپ کو یاد ہوگا ایران نے قطر میں موجود امریکی فوجی ٹھکانوں پر جو حملہ کیا تھا،اس نے کئی طرفہ مار کی۔ایک طرف اسرائیل پر یہ دہشت بیٹھی کہ ایران سپرپاور امریکہ سے بھی نہیں ڈرتا، دوسرے اس کا اثر امریکہ پر بھی ہوا۔تیسرے اس حملے نے اسلامی ممالک کو ایک کرنے کا کام کیا۔چوتھا اس حملے نے دنیا کو دکھایا کہ ایران فلسطین کے دشمنوں خواہ اس میں امریکہ ہی کیوں نہ شامل ہو،سے انتقام لے گا۔انجام خواہ کچھ بھی ہو۔ویسے بھی جنگیں تعداد سے نہیں نیک مقصد اور حوصلوں سے لڑی جاتی ہیں۔
یوں تو امریکہ زمانے سے دنیا کا باس بنا ہوا ہے۔دنیا میں طاقت کے اعتبار سے جو درجہ بندی ہے، اس میں امریکہ نمبر ایک پر ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے اس کی مدد کرتا ہے،جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔دنیا میں کوئی ملک بھی اس کی مرضی کے بغیر ایٹمی طاقت حاصل نہیں کرسکتا۔دو ملکوں کو لڑانا،کسی بھی ملک میں حفاظت کے نام پر اپنے فوجی اڈّے قائم کر نا،ہر طرح کے جنگی سازو سامان منھ مانگی قیمت پر فروخت کرنا،زبر دستی کسی بھی ملک پر رعب جھاڑنا جیسے کام امریکہ کرتا رہا ہے۔اسی ملک کی دوسری بار نمائندگی ٹرمپ کر رہے ہیں۔ٹرمپ اسرائیل کی بے جا مدد کر رہے ہیں۔ اسرائیل پورے خلیج میں بدامنی پھیلانے کا باعث ہے۔وہ ایٹمی طاقت ہونے کا نا جائز فائدہ اُٹھا رہا ہے۔کبھی بھی اپنے پڑوسی ملکوں پر حملہ کرتا رہتا ہے۔امریکہ نہ صرف خاموش تماشائی بنا رہتا ہے بلکہ اندر خانے اسرائیل کی مدد کرتا رہتا ہے۔یہی نہیں جب اسرائیل اور ایران کی جنگ ہوئی تو امریکہ دونوں کوسمجھانے کے بجائے خود بھی پارٹی بن گیا اور اس نے ایران پر حملہ کیا۔ پوری خلیجی دنیا میں اپنے فوجی اور ہوائی اڈے بنا رکھے ہیں۔یہ زیادہ تر مسلم ممالک ہیں،جن کی اپنی کوئی بڑی فوجی طاقت نہیں۔بیچارے امریکہ کے رحم و کرم پر ہیں۔لیکن جب ایران نے اسرائیل کو میزائلوں سے تباہ و برباد کر نا شروع کیا تو ٹرمپ مچل اُٹھے اور دونوں ملکوں میں جنگ بندی کی کوشش کر نے لگے۔ اسرائیل-ایران جنگ بندی ہوئے زمانہ ہوگیا۔ اسرائیل نے فلسطین کے بچوں،ضعیفوں، عورتوں اور معذور لوگوں کو مارنا بند نہیں کیا۔ غذا کے لیے قطار میں کھڑے نہتے اور بے قصور لوگوں پر بھی اسرائیل نے بم بر سائے۔امریکہ نے کبھی اسرائیل کو نہیں روکا؟ کیوں،آخر کیا وجہ تھی؟ جبکہ ٹرمپ تو امن کے پیغامبر بننے کے خواہش مند ہیں۔انہیں دنیا کا سب سے بڑا اور امن وامان کا خواہاں بننے کا شوق ہے۔ لیکن کیا کام امن پھیلانے والے ہیں؟کیا واقعی ٹرمپ دنیا میں امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں؟
نہیں، بالکل نہیں۔یہ بس ایک دکھا وا ہے۔اصل بات کچھ اور ہے۔امریکہ یعنی ٹرمپ حقیقتاً مسلمانوں کا دشمن ہے۔ جبکہ اسی ٹرمپ نے صدارتی انتخاب میں مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا۔ان سے امن و امان کا وعدہ کیا۔اسلامی ممالک میں امن و شانتی کے لیے ٹرمپ نے کیا کیا؟ کوئی کوشش یا پہل؟ نہیں انہوں نے اگر اسرائیل کو سمجھا یا ہوتا اور اس پر دبائو بنایا ہوتا تو اسرائیل اپنی حرکتوں سے باز آسکتا تھا۔مگر نہیں بلکہ اسلامی ممالک کو قابو میں کر نے کے اسرائیل کو ہتھیا ر کے طور پر استعمال کیا۔لیکن اب زیادہ دن ٹرمپ (امریکہ) اسلامی ممالک کو دبا نہیں سکتے۔قطر سمٹ میں اسلامی ممالک نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف آواز بلند کر نی شروع کر دی ہے۔پہلے ہی روس امریکہ کے دبائو میں نہیں آتا۔چین بھی امریکہ کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں اور اب انڈیا بھی امریکی رعب میں آنے والا نہیں۔ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ یعنی ٹرمپ کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔
aslamjamshedpuri@gmail.com