انسانی اقدار سے بالاتر امریکہ

0

نول کشور کمار

اگر ہندوستان کی تاریخ سے ہجرت کو ہٹا دیا جائے تو تاریخ کے پاس کہنے کے لیے شاید ہی کچھ بچے گا۔ یہ ہندوستان کے لیے اتنا ہی قابل ذکر ہے جتنا کہ امریکہ کے لیے، جس نے اپنے ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے مختلف ممالک کے شہریوں کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی سلسلے میں 104 ہندوستانیوں کو بھی امریکی فوجی طیارے کے ذریعے پنجاب کے امرتسر کے گرو رام داس بین الاقوامی ہوائی اڈے پر لایا گیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ امریکہ میں 18ہزار سے زائد غیر قانونی ہندوستانی مقیم ہیں جنہیں واپس بھیجا جانا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ ملک بدری کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کر رہا ہے۔ انہیں ہتھکڑیاں لگا کر بھیجا جا رہا ہے۔

دراصل ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور اقتدار سے قبل وہاں ہونے والے انتخابات میں امریکی قوم پرستی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے اور ان کی ٹیم نے انتخابی مہم کے ہر پروگرام میں لوگوں کے سامنے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ غیر قانونی اور غیر دستاویزی تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیجا جائے گا۔ انہوں نے دیگر ممالک کو بھی خبردار کیا کہ اگر انہوں نے ان تارکین وطن کو قبول کرنے سے انکار کیا تو انہیں اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیتنے کے بعد ٹرمپ نے اپنے انتخابی ایشو پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس قدم کو اچانک قدم قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن امریکہ نے اس کے لیے جو رویہ اپنایا ہے اس کے بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے تعلقات پر بلاشبہ منفی اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔

ویسے تو ہندوستان میں حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے بھارتیوں کو ہتھکڑیاں لگا کر بھیجنے اور ان کی تذلیل کے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو اس معاملے میں ہندوستانی حکومت کے اب تک کے موقف کی عکاسی کرتی ہے۔ یہی نہیں ہندوستانی پولیس کہہ رہی ہے کہ وہ ڈی پورٹ کیے گئے ہندوستانیوں کے مجرمانہ ریکارڈ کی چھان بین کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ہند اور اس کا نظام بھی ملک بدر کیے گئے شہریوں کو مجرموں کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری جانب انڈین نیشنل کانگریس نے ڈی پورٹ کیے گئے ہندوستانی شہریوں کو ہتھکڑیاں لگانے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس کے ترجمان پون کھیڑا نے اس سلسلے میں ایک سرکاری بیان میں کہا کہ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے مجھے امریکہ سے ہندوستانیوں کو ہتھکڑیاں لگا کر ملک بدر کئے جانے کی تصویریں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ مجھے دسمبر 2013 کا واقعہ یاد ہے جب ہندوستانی سفارت کار دیویانی کھوبراگڑے کو امریکہ میں ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔ اس وقت کی خارجہ سیکریٹری سجاتا سنگھ نے امریکی سفیر نینسی پاویل سے سخت احتجاج درج کرایا تھا۔ اگرچہ ڈی پورٹ کیے گئے شہریوں کو ہتھکڑیاں لگانے کا معاملہ صرف ہندوستانیوں سے ہی جڑا نہیں ہے، جنوبی امریکی ملک کولمبیا نے اس معاملے میں سخت موقف اپنایا ہے۔

’امریکہ کولمبیا کے تارکین وطن کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک نہیں کر سکتا‘کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے ‘X’ پر ایک پوسٹ میں لکھا۔ میں کولمبیا کے تارکین وطن کو لے آرہے امریکی طیاروں کا ہمارے علاقے میں داخلہ قبول نہیں کرتا۔ اس پر امریکی صدر ٹرمپ نے کولمبیا کے خلاف ٹیرف، ویزا پابندی اور دیگر جوابی اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ اس کے جواب میں کولمبیا نے بھی امریکہ کے خلاف کچھ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں کچھ اشیا پر درآمدی محصولات میں 25 فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔ اب اگر ہندوستان کے موقف پر نظر ڈالی جائے تو اس نے خاموشی اختیار کر کے امریکہ کے اس رویے کو منظور کر لیا ہے جس سے ہندوستان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ کم از کم اسے امریکی انتظامیہ سے اپنے شہریوں کے ساتھ احترام پروٹوکول پر عمل کرنے کو کہا جانا چاہیے تھا۔ درحقیقت غیر قانونی طور پر مقیم دیگر ممالک کے شہریوں کا مسئلہ وسیع ہے۔ یہ مسئلہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں تارکین وطن شہری طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ یہ مسئلہ ہندوستان میں بھی ہے۔ اس کے لیے حکومت ہند نے بھی شہریت ترمیمی قانون جیسی پہل کی۔ اس کے تحت اس نے اپنی سرحدوں کے اندر بغیر درست دستاویزات کے رہنے والے شہریوں کے ساتھ بھی مجرموں جیسا سلوک کیا ہے۔

یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ہندوستان نے اپنے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم شہریوں کے خلاف جس قسم کی غیر انسانی کارروائی کی ہے، وہی کارروائی امریکہ نے بھی کی ہے۔ امریکہ کے معاملے میں فرق یہ ہے کہ اس نے منظم طریقے سے ایسے شہریوں کو اپنے ملک کی سرحدوں کے پار بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان کے کل 7.25 لاکھ لوگ اس وقت غیر قانونی طور پر امریکہ میں موجود ہیں۔ یہ ایک بڑی آبادی ہے، جس نے امریکہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ دراصل اس سارے معاملے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ کس طرح صنعتی انقلاب نے ملکوں کے سماجی تانے بانے کو تبدیل کیا۔ چاہے وہ امریکہ ہو، برطانیہ یا فرانس۔ تقریباً تمام ممالک نے سستے لیبر کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی۔ اور آج دنیا کے نقشے پر ماریشس، سورینام، ہالینڈ وغیرہ ہیں جن کی پرورش ہندوستانی شہریوں کی محنت سے ہوئی ہے۔

پھر اگر ہم امریکہ کی مثال لیں تو اس کی ترقی میں ہندوستانی شہریوں کا بھی کردار ہے۔ مثال کے طور پر سیلیکون ویلی جس پر امریکی ٹیکنالوجی کی دنیا فخر کرتی ہے، صرف امریکی شہریوں کی وجہ سے سیلیکون ویلی نہیں بنی۔ تاہم یہ درست ہے کہ تمام ممالک کو غیر قانونی ہجرت کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے لیکن ایسا انسانی اقدار کو پس پشت ڈال کر نہیں کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں بھارت کو اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنی چاہیے۔اور اسے امریکہ پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اس کے شہریوں کے ساتھ عزت سے پیش آئے۔٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS