علاقائی پارٹیوں کا اتحاد

0

ہر بڑی علاقائی پارٹی کہتی ہے کہ اگر ملک بھر کی تمام علاقائی پارٹیاں متحد ہوکر انتخابات لڑیں تووہ بی جے پی کو شکست دے سکتی ہیں۔یہ بات بارہا ترنمول کانگریس کہہ چکی ہے ، این سی پی کہہ چکی ہے ،تلگودیشم کہہ چکی ہے، تلنگانہ راشٹریہ سمیتی بھی کہتی رہتی ہے ۔تازہ معاملہ بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا ہے ، جنہوں نے پارٹی کی قومی کونسل کی 2روزہ میٹنگ میں کہا کہ ہمارا ہدف ہے کہ تمام علاقائی پارٹیاں مل کر انتخاب لڑیں ۔ان کا کہناہے کہ سبھی یکساں نظریات والی علاقائی پارٹیاں ایک ساتھ آتی ہیں اورایک ساتھ الیکشن لڑتی ہیں ۔توہمیں کامیابی ضرور ملے گی ۔اس سلسلہ میں انہوں نے ریاست بہار کی مثال دی جہاں 7پارٹیاں اقتدارمیں ہیں ۔مسٹرکمارنے کہا کہ وہ دہلی جاکر دیگر پارٹیوںاوراپوزیشن کے بڑے لیڈران سے ملاقات کریں گے ۔بہارکے وزیراعلیٰ کی باتوں کے بعد خبر ہے کہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندرشیکھر رائو پٹنہ جاکر مسٹر کمار سے بات چیت کریں گے ، ویسے جب بھی علاقائی پارٹیوں کی طرف سے اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں ، تو کچھ میٹنگیں ہوتی ہیں اور ملاقاتیں بھی ہوتی ہیںبلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس کے لئے ایک ریاست سے دوسری ریاست باقاعدہ دورے بھی کئے جاتے ہیں ۔ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں یہاںتک دیکھا گیا تھا کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی نے سماجوادی پارٹی کیلئے اکھلیش یادو کے ساتھ انتخابی اسٹیج شیئر کیا تھا۔ لیکن بات کبھی بھی اس سے آگے نہیں بڑھ پاتی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ پانی کے ایک بلبلہ کی طرح اٹھتاہے اورکچھ وقت کے بعد پھوٹ جاتا ہے ۔
2014کے بعد جب سے مرکز میں مودی سرکار بنی ہے، کبھی اپوزیشن تو کبھی علاقائی پارٹیوں کے اتحاد کی باتیں نہ معلوم کتنی بار ہوچکی ہیں۔ اس کے بعد قومی اور ریاستی سطح پر کتنے انتخابات ہوئے لیکن ایسا کوئی اتحاد نظر نہیں آیا ، ایک دوریاستوں میں اتحاد ہوا بھی تو الیکشن کے بعد ٹوٹ گیا ۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اوردہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے تعلقات کتنے اچھے تھے ، ممتابنرجی نے راجدھانی دہلی آکر اسٹیج شیئر کیا تھا لیکن گوامیں دونوں پارٹیاں متحد ہوکر الیکشن نہیں لڑسکیں، جو ان کے لئے نئی ریاست کاالیکشن تھا ،کیوں نہیں لڑیں ِ ، یہ تو وہی بتاسکتی ہیں ۔اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچا۔کچھ ایساہی حال دیگر ریاستوں کا بھی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس۔ جنتادل (سیکولر) کا اتحاد ختم ہوگیا ۔موجودہ دورمیںاس وقت تک علاقائی پارٹیوں کا اتحاد کوئی معنی نہیں رکھتا ۔جب تک اس میں کانگریس شامل نہ ہو۔کیونکہ کانگریس کے بغیر بی جے پی کا متبادل کھڑانہیں کیا جاسکتا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں مضبوط پوزیشن میں ہیں ، وہاں کانگریس کمزور ہے ۔اورکانگریس کے کمزور رہنے کی وجہ سے علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں۔ اس لئے کوئی علاقائی پارٹی نہیں چاہتی کہ کانگریس پھر سے مضبوط ہو،لیکن کانگریس اوراس کے ووٹ کو نظر انداز کرکے نہ تو علاقائی پارٹیاں متحد ہوسکتی ہیں اورنہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتی ہیں ۔اس کے برعکس بھی صورت حال ہے ۔کانگریس ابھی تک قومی اوربڑی پارٹی ہونے کے زعم سے باہر نہیں نکل سکی ہے ۔حالانکہ پورے ملک میں وہ اقتدار سے باہر ہوچکی ہے ۔اپنے بل بوتے پر صرف 2ریاستوں راجستھان اورچھتیس گڑھ میں اس کی حکومتیں ہیں۔ مہاراشٹر میں مخلوط حکومت میں شامل تھی وہ ختم ہوگئی اوراب وہ بہار کی مخلوط حکومت میں شامل ہوئی ہے ۔کانگریس ملکی سطح پر اپنا تنظیمی ڈھانچہ ضروررکھتی ہے اورہرجگہ لاکھوں کی تعدادمیں اس کے حامی موجود ہیں ۔لیکن سرکار ، ممبران پارلیمنٹ واسمبلی کے لحاظ سے اس کی بھی حیثیت کسی علاقائی پارٹی سے زیادہ نہیں ہے اوراس وقت تو وہ اپنے داخلی مسائل سے دوچار ہے ۔تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی کے خلاف کانگریس کے بغیراپوزیشن کا کوئی اتحاد نہ تو مؤثر ہوگا اورنہ کارگر۔
بی جے پی بھی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے مرکز اورریاستوں میں اقتدارمیں آئی تھی ۔ایک وقت تھا جب قومی جمہوری اتحاد میں 24پارٹیاں شامل تھیں۔ تبھی پارٹی کے لئے مرکزی اقتدارکی دہلیز پر پہنچنا ممکن ہوا ۔اس کیلئے اس نے حالات سے سمجھوتہ کیا تھا ۔جو اپوزیشن پارٹیاں کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔وہ اپنا سیاسی مفادسب سے اوپر رکھنا چاہتی ہیں ۔یہی وجہ سے کہ اتحاد کیلئے ان کی کوئی بھی میٹنگ اورملاقات کامیاب نہیں ہوپاتی ۔اس لئے اس کا امکان زیادہ ہے کہ نتیش کمار کی باتیں بھی ممتابنرجی کی طرح نتیجہ خیز ثابت نہ ہوں ۔اپوزیشن اتحادکی باتیں کرنا آسان ہے ، لیکن ذاتی مفادسے اوپراٹھ کر سب کو ساتھ لے کر چلنا اورکسی کو اتفاق رائے سے قائد بنانا بہت مشکل ہے ۔شاید اسی کشمکش میں زمین پر کچھ بھی نہیں ہوپارہا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS