پروفیسر اسلم جمشید پوری
کمبھ میلہ اب اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ گنگا جمنا سرسوتی کے سنگم پر ہر 12سال بعد یہ میلہ منعقد ہو تا ہے۔ اس سے قبل یہ سماج وادی سرکار کے حصے میں آیا تھا۔ یعنی 2012 میں اس کا انعقاد سماج وادی سر کار میں ہوا تھا ۔اس وقت اس کے انچارج اتر پر دیش کے وزیر جناب اعظم خان تھے۔اس وقت اس کا سرکاری بجٹ تین ہزار کروڑ روپے تھا ۔سارا انتظام ٹھیک ٹھاک ہوا تھا۔کہا جاتا ہے کہ انگریزی دور حکو مت میں 1870میں الٰہ آباد کے گنگا،جمنا اور سرسوتی ندیوںکے سنگم پر اس میلے کا پہلی بار انعقاد ہوا۔لیکن غیر وثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ میلہ 12صدی عیسویں سے ہی منعقد ہوتا رہا ہے ۔یہ ہندو بھائیوں کی عقیدت سے تعلق رکھتا ہے ۔بہت پہلے سے یہ الٰہ آباد میں منعقد ہوتا رہا ہے ۔پہلے اسے ماگھ میلہ کہا جاتا تھا۔یہ ہندو میتھولوجی کے مطابق ایک مذہبی میلہ ہے ۔ہندو اس میلے میں الٰہ آباد میں گنگا جمنا اور سرسوتی میں نہاتے ہیں۔یہ اصل میں سورج ،چاند اور جوپیٹر کے ایک ہی طرف ہونے کا ثبوت ہے ۔یہ میلہ ہر 12سال بعد آتا ہے اور ہندو فقیروں ،سنتوں ،یوگیوں اور عقیدت رکھنے والوں کے لئے سود مند ہوتا ہے ۔ اس بار یہ میلہ ویسے تو 12 سال بعد ہی آیا تھا مگر بی جے پی کی اترپردیش کی یوگی سر کار نے اسے کمبھ کی جگہ مہا کمبھ کہا اور اسے 144 سال بعد آنے والا میلہ کہا ۔بی جے پی کی اتر پردیش سر کار نے اس کی کافی پبلسٹی کی ۔تقریباً ایک سال قبل سے ہی اس کی تیاریاں ہونے لگیں ۔اس کا سرکاری بجٹ ساڑھے 7 ہزار کروڑ روپے رکھا گیا تھا جبکہ خرچ کا اندازہ اس سے کہیں زیادہ کا ہے۔پوری سر کار ،سرکار کے وزیر ،ایم ایل اے، سیکریٹری ،کمشنر ،ایس ایس پی ، آئی جی ،ڈی ایم اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس والے اس کے انعقاد میں لگے ہو ئے تھے ۔ کمبھ میلے کو مہا کمبھ بنا کر بی جے پی نے اس کا خوب اشتہار کیا۔ایک اندازے اور سرکاری آنکڑوں کے مطابق اس مہا کمبھ میں 67 کروڑ لوگوں نے حصہ لیا ۔اب لوگوں کو گننے کا سرکار نے کون سا پیمانہ بنایا ۔؟آج تک مرکزی سر کار عام مردم شماری نہیں کرا پائی ہے ۔اسے اتر پردیش سر کار سے لوگوں کو گننے کا فارمولہ لینا چاہیے ۔پتہ نہیں کس طرح اس تعداد کو سر کار درست مانتی ہے،جبکہ مونی اماوشیہ کے دن جو بھگدڑ مچی اس میں مرنے والوں کو صحیح صحیح اب تک نہیں گن پائی ہے ۔سرکاری آنکڑوں (جو بہت بعد میں آئے ) کے مطابق 30 لوگ اس بھگدڑ میں ہلاک ہوئے۔ غیر سرکاری چشم دیدوں کا کہنا کہ کافی لوگ مارے گئے۔اس بھگدڑ کے وقت جب ہزاروں کمبھ کے عقیدت مندوں کو کوئی ٹھکانا نہیں ملا تو الہ آباد کے مسلمانوں نے اپنے گھر ،مسجد ،مدرسے ،خانقاہیں اور تعلیم گاہوں کے دروازے کھول دئے ۔نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ انہیں کھانے پینے ،سونے لیٹنے اور آرام کرنے کی ہر سہو لت مہیا کی ۔ایسا کر کے مسلمانوں نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو زندگی عطا کی اور قومی یکجہتی کی مثال پیش کی۔مرکزی وزیر ریل محترم اشونی ویشنو نے کہا کہ مہا کمبھ کے موقع پر 13 ہزار نئی ٹرینیں چلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ،مگر عقیدت مندوں کی بھیڑ دیکھتے ہوئے 16ہزار سے زائد ٹرینیں میلے کے لئے چلائی گئیں ۔اس طرح تقریباً ساڑھے 4 کروڑ سے 5 کروڑ لوگ ریل سے سفر کر کے سنگم پہنچے اور مقدس اشنان میں شریک ہو پائے ۔ اس دوران نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر مچی بھگدڑ میں لگ بھگ 18 لوگ ہلاک ہوئے ۔جب کہ یہ آنکڑا کسی اعتبار سے صحیح نہیں۔مختلف ویڈیوز کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں ۔وزارت ِ ریل نے ایسے تمام ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ملک کے مختلف حصوں کے ریلوے اسٹیشنوں پر افرا تفری کا ماحول بنا ہوا تھا۔انتظامات کا حال یہ تھا کہ دس بارہ کلو میٹر پہلے ہی عقیدت مندوں کو روک دیا گیا ۔اشنان کی جگہ جانے کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔12 کلو میٹر پیدل چل کر لوگ وہاں پہنچے ۔رکنے کا کوئی معقول انتظام تھا نہ نہانے کا ۔گنگا کے گندے پانی میں ہی بہت سے لوگوں نے ڈبکی لگائی۔ کھونے کے بعد کسی چیز اور انسان کا کوئی پتہ نہیں ۔
ملک کے وزیر اعظم جناب مودی جی نے مہا کمبھ کے خاتمے پر اپنی غلطی قبول کی اور معافی مانگتے ہو ئے کہاکہ میں جانتا ہوں،اتنا بڑا انعقاد آسان نہیں تھا۔میں دعا کرتا ہوں ماں گنگا سے ،ماں جمنا سے ،ماں سرسوتی سے ،اے ماں ہماری عقیدت میں کچھ کمی رہ گئی ہو تو معاف کریے گا۔عوام میرے لئے ایشور کی ہی شکل ہے عقیدت مندوںکی سیوا میں بھی اگر ہم سے کوئی کمی رہ گئی ہو تو درگزر کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ مہا کمبھ میلے کا کامیاب انعقاد 140کروڑ لوگوں سے جڑا تھا اور اتر پر دیش کے وزیر اعلی ٰ یو گی کا بہتر انتظام ہے۔اس موقع پر اتر پر دیش کے وزیر اعلیٰ محترم یوگی نے مہا کمبھ کی غلط رپورٹنگ کرنے والوں کوگدھ اور سور سے تشبیہ دی۔ایسا وزیر ِ اعلی ٰ کو نہیںکہنا چاہیے تھا۔رپورٹروں نے دن رات جاگ کر محنت کی اور اس عظیم الشان میلے کی پل پل کی خبریں دیں ۔ہمیں آنے والے مواقع اور تمام باتوں سے واقف کرایا ۔کچھ لوگوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر نہاتی ہوئی عورتوں کی تصاویر لیں اور ویڈیوز بنائے ۔یہ سب غلط ہے غیر اخلاقی حرکت ہے ۔ایسے لوگوں کو بلا تفریق مذہب و ملت ،سخت سزا ملنی چاہیے ۔ مہا کمبھ اب ختم ہو گیا لیکن سیاست اب بھی جاری ہے۔ جیسا بھی انتظام تھا ،اس نے بیرون ِ ملک ہندوستان کا نام روشن کیا۔ باہر کے کئی ملکوںسے بہت سے عقیدت مند بھی آئے اور اپنے عقیدے کے مطابق ڈبکی لگائی ۔بہت سی معروف شخصیتیں وزیر ِ اعظم مودی جی ،وزیر ِ داخلہ امت شاہ ،موہن لال ،آدتیہ ناتھ یو گی ،کٹرینہ کیف ،شلپا شیٹی ،اکشے کمار ،مکیش امبانی ،اور معروف سادھو سنتوں نے اپنی شرکت سے میلے کو خاص بنادیا۔ مگر اکھلیش یادو ،راہل گاندھی،ممتا بنر جی، کھر گے،اروند کجریوال جیسے سیاسی رہنمائوں کے علاوہ بہت سے صحافیوں نے بھی میلے کے انعقاد اور میلے کی بد انتظامی کو لے کر سوال کھڑے کئے ۔اتر پر دیش کے وزیر َ اعلی ٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سوال پو چھنے والوں کو گدھ اور سور سے تشبیہ دی تو صحافیوں کے ساتھ کئی سیاسی جماعتیں بھی بھڑک گئیں۔ان لوگوں کے سوال تھے۔کمبھ کو مہا کمبھ کیوں کہا گیا؟اس بار کے مہا کمبھ کو 144 سال بعد آنے والا کمبھ کیوں بتایا گیا؟ مسلمانوں کو اس سے دور کیوں رکھا گیا؟ 67 کروڑ لوگوں کے ہونے کا اعلان کس بنیاد پر کیا گیا؟ کمبھ میں بھگدڑ کیوں مچی ؟بھگدڑ میں مرنے والوں کی صحیح تعداد کیا تھی ؟ لوگوں کو 12 کلو میٹر دور کیوں روکا گیا؟ ندی کا پانی نہانے لائق نہیں تھا، کیوں؟روزانہ آنے والے لوگوں کو کیسے گنا گیا؟ یہ اور ایسے مختلف سوال آ ج سب کے دلوں میں ہیں۔اب ان سوالوں کو سیاست کانام کیوں دیا جارہا ہے۔؟کیا سوال پوچھنا سیاست ہے۔؟میلے کی صرف تعریف ہونی چاہیے ۔کیا یہ سیاست نہیں ہے ؟ کیا اسے ووٹ بینک بڑھانے سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے ؟ اس پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ کیا یہ پیسہ سرکاری نہیں تھا؟
اس طرح کے میلے تاریخی ہوتے ہیں ،ان کا تعلق عقیدتوں سے ہو تا ہے ۔اس کا سیاسی استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔یہ ایک مذہبی معاملہ ہے ۔اسے مذہبی ہی رہنے دیا جائے ۔کوئی اس کا سیاسی استعمال نہ کرے ۔یہ ہندوستان کی شان ہے اور قومی یکجہتی کی شناخت ہے ۔