خواجہ عبدالمنتقم
الٰہ آباد ہائی کورٹ کا یہ حالیہ فیصلہ کہ چند منٹ کی اذان سے صوتی آلودگی (Noise Pollution)پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں، نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ اس کی منطقی سوچ اور اعتدال پسندی کا مظہر ہے۔ہم سب ایک طویل عرصے سے ماحولیاتی آلودگی، فضائی آلودگی، آبی آلودگی اور اس کے بعد وقتاً فوقتاً شامل ہونے والی نئی نئی آلودگیوں کے نام سنتے چلے آرہے ہیںلیکن اب ماحولیاتی آلودگی صرف ہوا او رپانی تک محدود نہیں رہی ہے۔اب اس کا دائرہ کافی وسیع ہوچکا ہے اور ماحول میں تبدیلی و تحقیقاتی سرگرمیوں کے سبب مستقبل میں اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے کا امکان ہے۔۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کی نئی نئی اقسام ہمارے سامنے آرہی ہیں جیسے شور کے سبب آلودگی،انسانی بے راہ روی کے سبب آلودگی،طبی آلودگی،بصری یعنی کچھ دیکھ کر ہونے والی آلودگی،زراعتی آلودکاری،حراری آلودگی،تابکاری آلودگی،مٹی کے سبب آلودگی(Soil Pollution) ،لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ ایک دن ایسابھی آئے گا کہ کچھ لوگوں کو اذان کی آواز سے بھی آلودگی پیدا ہونے کاخدشہ پیدا ہوگا۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں اذان کوکچھ مخصوص سائنسدانوں سے مشورہ لینے کے بعد کہیں باقاعدہ طور پر اذان آلودگی کانام نہ دے دیا جائے۔ لیکن جب تک ہماری ذمہ دار عدلیہ موجود ہے اور حکومت و اس کے تحت چلنے والے ادارے اس کے حاکمانہ احکام و فیصلوں کو قابل عمل سمجھتے رہیں گے اوران پر عمل کرتے رہیں گے، تب تک ایسا کرنا ممکن نہیں۔صرف چند لوگ ہماری عدلیہ کو بلڈوز کرنے اوراس کی آزادی چھیننے کی ہمت نہیں کر سکتے۔
بانگ اذان اور صدائے ناقوس تو وہ ہیں جن کا پنڈت برج نرائن چکبستؔ نے اپنے کلام میں بارہا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں بانگ اذان کو نعرۂ دلکش کہا ہے اور اس کی فردوس گوش کیفیت کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی ناقوس کی نغمگی اور اس کی دل لبھانے والی کیفیت کا کتنے ہی اشعار میں حوالہ دیا ہے لیکن اب اذان، جسے سن کر سب کو سکون ملتا تھا، نمازی نماز کو جاتے تھے،کسان اپنے کھیت میں جاتا تھا،مائیں اپنے بچوں کو اسکول جانے کے لیے جگاتی تھیں،مسافر سفر کے لیے روانہ ہوتے تھے، بلند آواز میں دیے جانے کے سبب مبینہ طور پر آلودگی کا ذریعہ قرار دی جانے لگی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کسی بھی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا جس سے کسی کو تکلیف پہنچے اور اس ضمن میں آواز کو ایک حد تک رکھنے کی جو اجازت ہے، اس حد کی پابندی کی جانی چاہیے۔ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان بھی اپنے آس پڑوس اور اوقات کا دھیان رکھتے ہوئے اذان دیتے وقت لاؤڈاسپیکر کی آواز قدرے کم رکھیں تا کہ کسی کو آواز ناگوار نہ گزرے یا بیمار لوگوں و طلبا کو کوئی دقت نہ ہو اور ان کی نیند اور پڑھائی میں کسی قسم کا خلل نہ پڑے۔پھر بھی کسی کو اذان کی آواز ناگوار گزرے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔
اصل میں جب اس قسم کے ایشوز بدنیتی سے اٹھائے جاتے ہیں تو اس سے سماج میں انتشاری کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔یہ سب کچھ محبت سے بھی ہو سکتا ہے۔اگر برادران وطن چند منٹ اذان کی آوازبرداشت کرلیں اور اگر مسلمان بھی لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم کرلیں تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اس کا حل نہ نکلے۔کسی ایسے شخص یا طبقہ کی، جسے اس بات کی فکر ہو کہ کوئی اس کے زخموں پر مرہم لگائے، مرہم لگانے کے بجائے اس کے زخموں پر نمک چھڑکا جائے تو بس یہی کہا جائے گا ’الٰہی خیر ہو یہ زخم اچھا ہو نہیں سکتا‘۔
جہاں تک اذان کی بات ہے مسلمان کی زندگی کا آ غاز ہی اذان سے ہوتا ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے مگر اتنی بلندآواز میںنہیںجتنی مسجد میں دی جاتی ہے اور اذان کا یہ نظم تا حیات ہر نماز کے لیے قائم رہتا ہے۔ البتہ مرنے کے بعد جب نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے تو اس سے قبل اذان نہیں دی جاتی۔اس نماز کے بعد بھی مسلمان کا ملک کی مٹی میں دفن ہو کر اس مٹی سے تاحیات رشتہ باقی رہتا ہے:
وطن کی خاک سے مرکر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامانِ مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں
ذرا سوچئے کہ کیا اذان میں درج ذیل نوعیت کا کوئی ایسا آلودکار موجود ہے جس سے آلودگی پیدا ہونے کا کوئی امکان ہے۔ ماحولیات (تحفظ) ایکٹ، 1986 کی دفعہ2 میں ’’ماحولیاتی آلودکار‘‘ کی جو تعریف کی گئی ہے، وہ اس طرح ہے:
’’ماحولیاتی آلودکار‘‘ سے مراد ہے کوئی ٹھوس، مائع یا گیس دار شے جو اس قدر ارتکاز میں ہو کہ ماحول کے لیے مضرت رساں ہو، یا ہوسکتی ہو۔ ’’ماحولیاتی آلودگی‘‘ سے مراد ہے کسی ماحولیاتی آلودکار کی ماحول میں موجودگی۔
کیا اذان میں کوئی ایسی ٹھوس،مائع یا گیس دار شے موجود ہے جس کا اس قدر ارتکاز ہو جو ماحول کے لیے مضرت رساں ہو اور وہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے؟ شاید ان ہی باتوں پر غور کرنے کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ کے معزز جج نے سپریم کورٹ کے والسما پال والے معاملے میں ایک جج کی ایمانداری کے جو درج ذیل پیمانے مقرر کیے تھے،ان کا بار بار اور جب جب کسی جج کی ایمانداری کی بات ہوتی ہے حوالہ دیا جاتا ہے،ان پر پورا اترنے کا ثبوت دیا ہے:
’’ جج ایک ایسا قانو ن داں ہونا چاہیے، جو ایک لیجسلیٹر کی طرح دانشمند ہو، ایک تاریخ داں کی طرح سچائی کا متلاشی ہو اور اس میں حال و مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت ہو، تاکہ وہ کسی اثر و رسوخ کے بغیر میلان طبع یا جانبدارانہ فکر و عمل سے پہلو تہی کرتے ہوئے ایک معروضی اور غیر جانبدارانہ فیصلہ دے سکے۔‘‘
در اصل اس ملک میں جہاں آئین میں تمام اشخاص کو آزادیٔ ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق حاصل ہو، اس طرح کی بے تکی باتیں کرنا کہ اذان سے امن عا مہ کوخطرہ پیدا ہوجاتا ہے،صحت عامہ پر منفی اثر پڑتا ہے، مزید یہ کہ اس سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے، قرین مصلحت نہیں۔ صرف یہی نہیں بھارت کا آئین تو بھارت کے عوام کے الگ الگ رنگ اور روپ کو بھی تسلیم کرتا ہے لیکن وہ ان کی جداگانہ حیثیت کے باوجود ان میں سے ہر ایک کو مساوی اہمیت دیتا ہے کیونکہ اسی طرح ہی ایک متحدہ سیکولر قوم وجود میں آتی ہے۔بھارت ایک ایسا وسیع و عریض ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور الگ الگ زبانیں بولنے والے صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ انسان دوستی، رواداری اور آپسی بھائی چارہ اس کی وراثت ہیں۔ ہماری تقریباً 81سالہ آنکھوں نے دہلی میں نمازیوں کو نماز پڑھنے کے بعد، مندر سے پوجا کرنے کے بعد واپس آتے ہوئے ہندوؤں سے سلام دعا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔اب اذان سے صوتی آلودگی!
’ اس سادگی یا بے راہ روی پے کون نہ مر جائے ا ے خدا‘
(مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ)
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]