پروفیسر اسلم جمشید پوری
ہندوستان میں آج کل پارلیمانی انتخابات کا زمانہ ہے۔ اصل میں ہندوستان ایک بڑا جمہوری ملک ہے۔آبادی اور رقبے کے اعتبار سے یہ دنیا کے تین بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔آزادی کے بعد سے ہی یہاں جمہوری نظام ہے۔ہندوستان مین 28ریاستیں اور8 یونین ٹیریٹریز علاقے ہیں۔ یہ علاقے ایک ایڈ منسٹریٹر کے ذریعہ صدر جمہوریہ کے ماتحت آتے ہیں۔کل ملا کر ہندوستان کی آبادی ایک اندازے کے مطابق (9؍اپریل2023کے مطابق)142 کروڑ 86 لاکھ ہے۔اس سال اس کی آبادی چین کی آبادی کو پیچھے چھوڑتے ہو ئے دنیا کی سب سے زیادہ ہو جائے گی۔یہ جہاں بہت بڑے اعزاز کی بات ہے، وہیں ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔
ہندوستان میں صدیوں سے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ، جین،پارسی۔۔۔سب شیر و شکر کی طرح رہتے آئے ہیں۔ اسی کو کثرت میں وحدت اور تکثیریت کہتے ہیں۔یہی ہمارے ملک کی شان ہے اور اسی سے ہمارا ملک پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ اس ملک پر ہندوئوں، مسلمانوں، عیسائیوں نے حکومت کی مگر کوئی بھی اپنی طاقت سے ہمیں توڑ نہیں پایا۔انگریزوں نے جاتے جاتے ہمیں ہندو مسلمان میں بانٹنے کی کو شش کی۔تقسیم کے وقت کچھ مسلمانوں نے پاکستان میں رہنا پسندکیا اور وہاں چلے گئے۔ہندوستان پھر بھی سبھی مذاہب کی آماجگا ہ بنا رہا۔یہاں کے حکمرانوں نے دور رسی سے جمہوری نظام کو چنا اور سیکولرازم کو اپنایا۔سبھی کو یہاں رہنے، اپنے مذاہب پر عمل کرنے، عبادت گاہ بنانے، کہیں بھی آنے جانے،رہنے کا پورا حق حاصل تھا۔
نجانے اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں فرقہ پرستی بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی،جس نے مسلمانوں کی مسجد ( بابری مسجد) کو نگل لیا۔فرقہ پرستی کا زہر اس قدر پھیلا کہ ہندو مسلمان کا دشمن ہو گیا۔یہاں تک ہوا کہ ایک جماعت نے اسے انتخابات میں ایک ہتھیار کے طور پر اپنا یا۔فرقہ پرستی کو ہوا دے کر اکثریتی فرقے کو ایک نقطے پر مرکوز (Polarisation )کیا اور دو بار حکومت کی۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد رام مندر کی تعمیر کو ایشو بنایا۔اب رام مندر کے افتتاح کو اس انتخاب میں کیش کر نے پر کمر بستہ ہیں۔ملک میں فرقہ پرستی کا جذبہ جنون کی ساری حدیں پار کر گیا۔ملک کی ایک بڑی آبادی جس میں نچلے طبقے کے لوگ اورمسلمان بھی شامل تھے،ان کو نیچا دکھا نے کے مختلف حربے،بڑے مندروں میں داخل ہونے پر پابندی،ہجومی تشدد،لو جہاد،گھر واپسی، تین طلاق،این آر سی،یو سی سی جیسے قانون،حزب اختلاف کو کمزور کرنے کے ہر ممکن جتن، کانگریس مکت بھارت جیسے نعرے سے ملک کو کہاں سے کہاں لے گئے۔یہاں مجھے سعادت حسن منٹو کی ایک بات شدت سے یاد آ رہی ہے۔انہوں نے کہا تھا: ’’ لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دو کہ وہ محرومیوں کو قسمت سمجھیں، ظلم کو آزمائش سمجھ کرصبر کر لیں،حق کے لیے آواز اٹھانا گناہ سمجھیں،غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا دن معین سمجھ کرچپ رہیں۔‘‘
اس بار یعنی 2024کا عام انتخاب ابھی جاری ہے۔ چار مرحلے ہوچکے ہیں۔ تین مرحلوں کا انتخاب باقی ہے۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ یہ انتخاب خصوصی طور پر دو گروہوں این ڈی اے اور انڈیا کے درمیان ہو رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ انتخاب وزیراعظم نریندر مودی اور راہل گاندھی کے درمیا ن ہے۔جس طرح جنگ اور محبت میں ہر بات جائز ہو تی ہے،الیکشن میں بھی یہ دیکھنے میں آرہا ہے۔کچھ لوگوں نے الیکشن کو بھی جنگ سمجھ لیا ہے،جبکہ الیکشن تو جمہوریت کی جان ہے۔الیکشن کی مثال انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔مگر الیکشن میں امیدواروں کی ذاتی زندگی کو بھی سامنے لا کر انہیں بے عزت کیا جا رہا ہے۔
امیٹھی،اس وقت پورے ملک کا اہم حلقہ بن گیا ہے۔ اس سیٹ کو گاندھی خاندان کی خاندانی سیٹ کہا جاتا رہا ہے۔ یہاں سے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی،سونیا گاندھی وغیرہ کافی لمبے عرصے سے جیت حاصل کرتے رہے ہیں۔گزشتہ پارلیمانی الیکشن2019 میں یہاں سے اسمرتی ایرانی نے راہل گاندھی کو ہرا دیا تھا۔اس بار بھی امیٹھی سے بی جے پی امیدوار کے طور پر مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی امیدوار ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ پورے ملک کو آخری وقت تک انتظار تھا کہ راہل گاندھی یہاں سے ضرور پرچہ داخل کریںگے۔ راہل گاندھی کو گھیرنے کی بی جے پی کی طرف سے ہر طرح کی تیاری ہو چکی تھی۔بی جے پی نے اس حلقے کے اشتہار کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے طے کر رکھے تھے، یعنی سبھی ہندی،انگریزی کے اخبارات،ٹی وی چینلز اور ہورڈنگس وغیرہ پر ہر طرف اسمرتی ایرانی سے ہارتے راہل گاندھی کو دکھایا جاتا۔راہل گاندھی،کانگریس اور ’انڈیا‘ اتحاد کی بھاری ہار دکھائی جاتی۔ہر طرف راہل کی ہار ہوتی۔اس حلقے میں وزیراعظم اور امت شاہ کی تین تین ریلیاں، یوگی، نڈا، سیتارمن، راج ناتھ مشرا، انوراگ ٹھاکر کی ریلیاں منعقد ہوتیں،جن میں گاندھی خاندان کو گھیرنے کی کوشش کی جاتی۔راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو ایسے چکرویو میں پھنسا یا جاتا کہ وہ اس جال سے کبھی باہر نہ آتے۔اپنی عزت بچانے کو مجبوراً ان دونوں اور کانگریس کے اہم لیڈران کو امیٹھی میں ہی ڈیرہ ڈالنا ہوتا۔اس طرح پورا ملک ان کی تشہیری مہم سے محروم رہ جا تا اور امیٹھی سے ہار راہل گاندھی کا مقدر بنتی۔دوسری طرف اسمرتی ایرانی بڑے فخر سے کہتیں کہ انہوں نے گاندھی خاندان کے فرد کو ہرایا ہے۔ کانگریس کے ایک اہم لیڈر کو ہرایا ہے۔ وزیراعظم کے دعویدار کو ہرا یا ہے۔گاندھی خاندان نے بڑی حکمت سے امیٹھی سے ایک زمینی سیاست داںاور گاندھی خاندان کے وفادار کشوری لال کو میدان میں اتار کر اسمرتی ایرانی،امت شاہ،وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کو چونکا دیا بلکہ انگشت بدنداں کر دیا۔کانگریس کی اس جوابی چال نے بی جے پی کی بساط ہی الٹ دی۔بی جے پی کے اشتہار پر کی جانے والی خطیر رقم،ریلیاں،راہل کو نیچا دکھانے کی سازش، اسمرتی ایرانی کا خواب،سب چکنا چور ہوگیا۔اگر اسمرتی ایرانی فتحیاب ہو بھی جاتی ہیں تو ایک معمولی کارکن سے جیتتیں۔۔۔اور ہار گئیں ( جس کے چانس زیادہ ہیں)تو سبھی کہیں گے کہ کانگریس کے ایک معمولی ورکر سے ہار گئیں۔ اسمرتی ایرانی کا سیاسی کریئر ختم بھی ہو سکتا ہے۔
کانگریس اور راہل گاندھی بہت دور کی کوڑی لائے۔ راہل گاندھی نے پرچہ بھرنے کے آخری دن رائے بریلی سے پرچہ داخل کر کے سب کو حیران و پریشان کر دیا۔بی جے پی چاروں خانے چت ہوگئی۔راہل گاندھی کی منصوبہ بندی کا جواب نہیں۔ایسا کر کے انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کیے۔راہل گاندھی کی انتخابی مہم ان کی بہن پرینکا گاندھی چلائیں گی۔راہل خود پورے ملک کے لیے خالی ہوں گے۔ پرینکا گاندھی نے امیٹھی اور رائے بریلی سنبھال کر این ڈی اے کے ہوش اڑا دیے ہیں۔اپنی انتخابی مہم کے دوران پرینکا مقامی مسائل اٹھا رہی ہیں۔ترقی کے نام پر کیے گئے جھوٹے وعدوں اور دکھائے گئے خوابوں کی حقیقت کھول رہی ہیں۔پرینکا گاندھی نے امیٹھی اور رائے بریلی میں انتخاب ہو نے تک اپنا ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔راہل گاندھی نے ایک اور چال چلی ہے کہ وہ جب رائے بریلی سے اور وائناڈ دونوں جگہ سے کامیاب ہوجائیں گے تو انہیں ایک سیٹ چھوڑنی پڑے گی،وہ رائے بریلی چھوڑ دیں گے اور وہاں سے پرینکا گاندھی کھڑی ہو سکیں گی۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔مگر اتنا تو دکھائی دے رہا ہے کہ بی جے پی کی سبھی چالیں اور حربے ناکام ہوگئے ہیں۔ بی جے پی لیڈر اپنے ہی دام میں گرفتار ہو گئے ہیں اور مات کھانے کے قریب ہیں۔
[email protected]