گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عید گاہ کےمتعلق نئے تنازعات پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اظہار تشویش

0

حیدرآباد: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدالتوں کے ذریعے عبادت گاہ ایکٹ 1991کو نظر انداز کئے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ اس تشویش کا اظہار یہاں منعقدہ بورڈ کے مجلس عاملہ کا اجلاس میں کیا گیا۔

ریلیز کے مطابق مجلس عاملہ کا اجلاس وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عید گاہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں میں جو نئے تنازعات پیدا کئے گئے ہیں، اس کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اجلاس کا احساس ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء کے قانون کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کر دیا تھا،

 

اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے،

 

اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے،

 

اگر ان چور دروازوں کو بند نہیں کیا گیا تو پھر اس بات کا اندیشہ ہے کہ شر پسند قوتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے نئے فتنے اور تنازعات کھڑے کرتی رہیں گی۔ متھرا کی عیدگاہ کے متعلق ۱۹۶۸ء میں کرشنا جنم بھومی ٹرسٹ اور شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ اس تنازعہ کو حل کر لیا گیا تھا،

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت عظمیٰ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ ان نئے فتنوں کا دروازہ بند کر کے ملک میں امن وامان اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے گا، اسی طرح دہلی کی سنہری مسجد کے تعلق سے این ڈی ایم سی نے ٹرافک کا بہا نہ کر اس کی شہادت کا جو ناپاک منصوبہ بنایا تھا، سرِ دست عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے؛

تاہم اجلاس کا احساس ہے کہ سنہری مسجد اور لٹین ژون میں دیگر ۶؍ مساجد شر پسندوں کے نشانے پر ہیں، بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ تمام مساجد اوقاف کی ان ۱۲۳؍ جائیدادوں میں شامل ہیں، جن پر عدالت نے اسٹے دے رکھا ہے، اسی طرح سنہری مسجد اور دیگر مساجد ہیری ٹیج تعمیرات میں بھی شامل ہے؛ لہٰذا اُن سے چھیڑ چھاڑ کرنا ملک کی تاریخی وراثت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔

 

۲۔ بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلا وطن کرنے پر تُلی ہوئی ہے ، اس نے جبروظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے، اس جنگ کی ابتداء ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے نہیں؛ بلکہ جون ۱۹۶۷ء سے ہوئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ ،غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد’’ مسجد اقصیٰ ‘‘پر بھی قابض ہو گیا تھا، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کر چکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے؛ مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعماری طاقتوں کی شہہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا، یہ اجلاس اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کی سخت مذمت کرتا ہے ،اُن مسلم ملکوں کی بھی جنھوں نے فلسطینیوں کو بچانے کے لئے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور حد درجہ بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک اور بعد کی حکومتوں میں بھی ہمیشہ ہندوستان نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے، حکومت ہندکو اپنے اسی دیرینہ موقف پر قائم رہنا چاہئے؛ کیوں کہ فلسطینیوں کی لڑائی اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی، اور اپنے آپ پر ظلم کو روکنے کی جدوجہد ہے نہ کہ دوسروں پر ظلم کرنے کے لئے، یہ اجلاس غزہ کے مروو خواتین، بچوں ،بزرگوں اور نوجوانوں کے عزم واستقلال، پامردی وشجاعت اور صبر واستقامت کے جذبوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، یہ اجلاس دنیا کے بیشتر ملکوں اور خود ہمارے ملک میں عام انسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کی حمایت میں جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ پیش کیا ہے، اس کی ستائش کرتا ہے،یہ اجلاس عالم اسلام سے بھی یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں جرأت کا مظاہرہ کرے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرے؛ کیوں کہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور حق کا ساتھ دینا انسانی فریضہ بھی ہے اور اسلامی فریضہ بھی۔

۳۔ بورڈ پہلے بھی اس بات کو واضح کر چکا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کے روح کے بھی خلاف ہیں۔اقلیتوں کو دستور میں جو ضمانت دی گئی ہے، یونیفارم سول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا؛ اس لئے نہ مرکزی حکومت کو اور نہ کسی ریاستی حکومت کو یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات کرنی چاہئے، یہ بات قطعاََ ناقابل قبول ہوگی۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں پہلا روزہ کس تاریخ کو ہوگا؟ :پڑھیں رپورٹ

۴۔ اجلاس کا احساس ہے کہ ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کی عزت وآبرو کے تحفظ کے لئے حکومت کی طرف سے مؤثر تدابیر نہیں ہو رہی ہیں۔ آئے دن عورتوں کی عزت وآبرو پامال کی جا رہی ہے، افسوس کا مقام ہے کہ خواتین کی عزت وعفت کی پامالی میں حکمراں جماعت کے اہم افراد بھی ملوث پائے گئے ہیں، اجلاس کا یہ بھی احساس ہے کہ خواتین کو اپنے جائز اور قانونی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے طویل عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جس میں بہت وقت بھی صرف ہوتا ہے اور کثیر سرمایہ بھی۔یہ اجلاس حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مؤثر اقدامات کر کے ان جرائم پر تیزی سے قابو پائے، محض قانون ساز اداروں میں ۳۳؍ فیصد ریزرویشن دے دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS