اسرائیلی بربریت کے سامنے سب بے بس

0

پوری دنیا ا س وقت چیخ وچلا رہی ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی کارروائی اور وحشیانہ بمباری روک دے، مگر اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ دنیا کے سب سے اہم ترین اورموثر اداروں نے بار بار کہا ہے کہ وہ غزہ میں بمباری نہیں روکتا تو حالات بدسے بدتر ہوجائیںگے۔ یہ وارننگ گزشتہ ایک ماہ سے آرہی ہے مگر صرف 7دنوں کی خاموشی کے بعد اسرائیل نے پھر اپنے ظلم کا ننگا ناچ دکھانا شروع کردیا ہے۔ اقوام متحدہ نے ابھی ایک اور دلخراش وارننگ دی ہے کہ غزہ کے حالا ت اور زیادہ بدسے بدتر ہوگئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ نے تو انتہائی سخت لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالات مزید جہنمی ہوگئے ہیں۔ یہ لفظ اپنے آپ میں بدترین صورت حال کی طرف واضح پیغام ہے۔ اس دوران اسرائیل نے جنوبی غزہ میں مزید سخت کارروائی کی ہے اور خانیونس کیمپ میں نام نہاد حماس لڑاکوئوںکے خلاف کارروائی کی ہے۔ اسرائیل کی حوصلہ افزائی اس قدر ہوئی ہے کہ اس نے تازہ ترین وارننگ میں شہر کے پانچویں حصے کو بھی خالی کرا دیا ہے۔ اتنی بڑی آبادی کی نقل مکانی کس قدر مشکل ہے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس دوران ایندھن کی کمی کی وجہ سے شہر میں ٹیلی مواصلات کی خدمات بالکل ٹھپ ہوگئی ہیں اور مکمل بلیک آئوٹ کی وجہ سے عام شہری کو بدترین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران حماس نے اموات کی تازہ ترین اعدادوشمار پیش کی ہیں اورکہا ہے کہ 7؍اکتوبر کے بعد سے اب تک کی کارروائی میں 15ہزار 800لوگ مارے جاچکے ہیں، جن میں 6ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ اس دوران اسرائیل نے قطر اور ترکی کو بھی ہانکنا شروع کردیا ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حماس کی قیادت کو وہا ں سے نکالے۔ اس نے کہا ہے کہ اس کی فوجیں اور اس کے اہلکار قطر یا ترکی کے اندر اپنے حریف یعنی حماس کے لیڈروں اور افسروں کو نہیں بخشیںگے اوراس بابت ان دونوں ملکوں کی اقتداراعلیٰ کا بھی خیال نہیں رکھیںگے۔ اسرائیل کی اندرونی سلامتی کے سربراہ شین بیتھ نے کہا ہے کہ ان کا ملک حماس کے لیڈروں کا تعاقب لبنان، ترکی اور قطر تک میں کرے گا۔ خیال رہے کہ قطر موجودہ تنازع میں انتہائی حساس اور نازک رول ادا کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے اسرائیل حماس کے ذریعہ مذاکرات کرکے اسرائیلی یرغمالیوںکو آزاد کرانے میں کامیاب رہا ہے۔ جبکہ ترکی ان چند ملکوںمیں شامل ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ قدیمی سفارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں، جبکہ لبنان میں مبینہ طورپر حزب اللہ کی سرپرستی میں رہنے والے فلسطینی نوازسیاستداں اور جنگجو مقیم ہیں۔ لبنان کی سیاسی جماعت حزب اللہ کا شمار مغربی ایشیا کے اہم فوجی گروپ میں ہوتا ہے جو نہ صرف لبنان میں ایک بااثر فوجی طاقت ہے بلکہ اس ملک میں ایک کلیدی سیاسی کردار بھی ادا کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی وجہ سے لبنان میں اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری نہیں ہوپارہی ہے، کیونکہ حزب اللہ کے ممبران پارلیمنٹ ان عہدوں پر اپنے حریفوںکی تقرری کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ 2006میں شکست کھانے کے بعد بھی اسرائیل کے دانت کھٹے نہیں ہوئے ہیں۔ جنوبی لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان محاذ کھلا ہوا ہے اورہر روز نئے حملوں اورجوابی حملوں کی خبریں آرہی ہیں۔ اس دوران قطر کا ایک وفد اسرائیل کے دورے پر ہے جوکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے امکانات اور قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کر رہا ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بین الاقوامی سطح پر کئی معرکے ہوچکے ہیں اوریہ دونوں ممالک دوسرے ملکوںمیں بھی ایک دوسرے کے کارکنوں، افسروں اور رضاکاروںکونشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں 1972 کے میونخ میں ہونے والے اولمپک کھیلوںمیں اسرائیلی کھلاڑیوں کی موت ایک اہم واقعہ ہے۔ جس پر پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا تھا۔ اسرائیل کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس نے 1997میں جورڈن میں مقیم حماس کے لیڈر خالد مشعل کو زہر دینے کی کوشش کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی بنجامن نیتن یاہو اسرائیل کے وزیراعظم تھے۔ ایسے حالات میں نہیں لگتا کہ اسرائیل فلسطین تنازع آسانی سے حل ہوجائے گا۔ قارئین کو یادہوگا کہ غزہ کی ناکہ بندی کے بعد اور چاروں طرف ایک طویل اور آہنی دیوار کھڑا کرنے کے بعد کئی ملکوں نے اسرائیل کے اس غیرانسانی رویہ کے خلاف ناراضگی کااظہار کیا تھا اور غزہ کے مکینوںکوراحت پہنچانے کے لئے ایک بجری قافلہ فلوٹلہ بھیجا تھا جس پر اسرائیلی فوج نے کمانڈو کارروائی کرکے اس بحری جہاز میں سوار مسافروں، رضاکاروں جن میں خواتین بھی شامل تھیں، موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہت زیادہ خراب ہوگئے تھے اور دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفیر واپس بلا لئے تھے۔
ترکی نے اسرائیل کی دھمکی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل اس کی سرزمین پر اس قسم کی کوئی حرکت کرتا ہے تواس کے سنگین نتائج ہوںگے۔ ترکی کے انٹلیجنس افسران نے اس بابت بہت واضح انداز میں اپنی دھمکی دی ہے۔ یاد رہے کہ دو روز قبل ہی قطر کے امیرحمد بن خلیفہ آل ثانی نے اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ سے یواے ای میں ملاقات کی تھی۔ قطر اس معاملے میں بہت ہی محتاط رویہ اختیارکئے ہوئے ہے اوراسرائیل نے وزیر برائے داخلی سلامتی کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن اسرائیل کے مثبت رویے کی بڑی پذیرائی کرچکے ہیں اورانہوں نے یرغمالیوں کے بحران کو حل کرنے میں قطر اور مصر کے رول کی تعریف کی تھی۔ اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا نے کئی مرتبہ قطر کا دورہ کیا تھا اور قطر کے حکام سے مذاکرات کرکے اسرائیل اور دیگر کئی ملکوں کے یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے لئے بات چیت کی تھی۔ ذرائع کے مطابق موساد کے سربراہ کم از کم تین مرتبہ قطر جاچکے ہیں۔
اسرائیل کا جنگی جنون کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم جوکہ خود کرپشن اور مالی بے ضابطگیو ں کے سنگین الزامات کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اپنی حرکتوںسے باز نہیں آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کا یہ جنگی جنون غزہ کے علاوہ مغربی کنارے، دمشق اور دیگر ان مراکز پر بھی حملہ کرے گا جو اسلام کے اہم مراکز ہیں۔ نیتن یاہو کی یہ حرکتیں بتاتی ہیں کہ وہ فطرتاً شرپسند اور نسل پرست ہیں۔ وہ صرف اپنے ’ملک‘ ہی نہیں بلکہ گرد ونواح میں جتنے بھی ممالک ہیں ان کے لئے خطرہ ہیں۔ یہ ان کے ان بیانات سے ثابت ہوچکا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ کے ارباب حل وعقد ان کے اس جنگی جنون میں ایک آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے صدر، وزیرخارجہ، وزیر دفاع اور نائب صدر کے بیانات نے نیتن یاہو کے حوصلے اس قدر بڑھا دیے ہیں اور یہ اژدہا اس قدر خوفنا ک اور بڑا ہوچکا ہے جو اپنے خالق کو ڈسنے کو تیار ہے۔ مذکورہ بالا تمام افسران اب اپنی زبان بدل چکے ہیں اور غزہ میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بربریت پر مسلسل امریکہ سے وارننگ آرہی ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر بمباری نہ کرے اور عام شہریوں، بچوںاورعورتوں کو نشانہ نہ بنائے۔ حال ہی میں امریکہ کے وزیردفاع نے وارننگ دی ہے جس کا کوئی اثر اسرائیل پر نہیں پڑ رہا ہے اور اب امریکہ میں اسرائیل اورامریکہ کے رشتوں کو لے کر بحث شروع ہوگئی ہے، لیکن امریکہ میں اسرائیل نواز لابی اس قدر طاقتور ہے کہ امریکہ کے سینیٹر جن کاتعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے انہوں نے امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے بارے میں کہا ہے کہ ڈیفنس سکریٹری کا مذکورہ بالا بیان حد سے تجاوز کرنے والا ہے اور اگر اسرائیل اپنی کارروائی بند کردیتا ہے تو یہ اسرائیل کی اسٹریٹجک شکست ہوگی۔ سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ وزیردفاع لائڈ آسٹن نے اپنا اعتماد کھو دیا ہے۔
ادھر حماس نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ یرغمالیوںکی رہائی کے لئے مذاکرات کے لئے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ غزہ میں ہونے والا قتل عام نہ تورکنے والا ہے اورنہ ہی اس کو لے کر دنیا میں تنازعات، بیانات اور جوابی بیانات کا سلسلہ ہی تھمے گا۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS