قطب اللہ
ایران پر تازہ اسرائیلی حملہ ، برکس کانفرنس میں ایک دوسرے متحدہ اقوا م کے قیام کی جھلک تو لبنان میں اسرائیل کی شرمناک پسپائی اورمالی اعتبار سے دیوالیہ ہونے کے کگارپر صہیونیت اوراِن سب کے درمیان غزہ میں پھر قیامت ٹوٹ پڑنے کی خبریں دنیابھر کے امن وانصاف پسندوں کو سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی ہیں۔ تازہ اسرائیلی حملہ جو 25/26اکتوبر کی صبح کاذب کے وقت ہوا وہ اگرچہ ایسا حملہ نہیں تھا کہ اس پر اظہارافسوس کیاجائے کیونکہ صہیونیوں نے ایران کے جن علاقوں کو نشابہ بنایا وہ نہ تو آبادی والے تھے اورنہ ہی اس کے پیٹرولیم پیداوار کے مراکز یا ذخائر کے اڈے اورناہی ایران کے نیوکلیائی ٹھکانے۔ جن کیلئے ایران نے باربار اسرائیل اوراس کے سرپستوں ،امریکہ ،برطانیہ ، جرمنی ا ورفرانس کو متنبہ کررکھاتھا کہ اگرایسا ہواتو ہم پڑوسی عرب وعجم میں قائم مذکورہ ممالک کے تیل گیس اورحساس امریکی فوجی ٹھکانوںکو بخشیں گے نہیں۔اِس سلسلے میں ایرانی وزیراعظم ڈاکٹرمسعود اوروزیر خارجہ نے اپنے پڑوسی مسلم ممالک کادورہ کرکے یہ اپیل کی تھی کہ ایران پر صہیونی حملوںکی صورت میں وہ اپنے فضائی حدود کو دشمن کو استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ اس کاسارے عرب اورمسلم ممالک نے مثبت جواب دیاتھا، خاص کر سعودی عرب ،اردون، شام اورمتحدہ عرب امارات نے ا س سلسلے میں اپنے مغربی دوستوں کو بھی بتادیاتھا، لیکن وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتارہا کے مصداق غداری ایک عرب ملک یعنی اردن نے کردی اور ہاشمی خاندان کی خودی کوصہیونیوں کے پاس گروی رکھ کر اس کے بمباری کرنے والے انسانیت کے دشمن طیاروں کو ایران پر حملہ کرنے کیلئے اپنا آسمان کھلا چھوڑ دیا۔
حملہ تو بہرحال حملہ ہے وہ بھی نسل کشی کے مرتکب اسرائیل کا ساتھ دینے کیلئے۔حالانکہ یہ حملہ اتناناکام رہاکہ اس کے اکثر طیاروں کو ایرانی فضائی دفاعی نظام کے ذریعہ فضامیں ہی تباہ کردیاگیا۔ اسی لئے ایران کا کوئی ایسا نقصان نہیں ہواجس پر ماتم کیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اوراس کی پوری کابینہ اپنے بنکروں میں اندھیرے کئے بیٹھی رہی جس طرح حماس کے عظیم رہنمااسماعیل ہنیہ، یحییٰ السنوار اورحزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کی خبر پر سب نے جشن منایاتھا۔ اس بار ایسا کچھ نہیں دیکھاگیا۔ اسرائیل اورمغربی ممالک کے گودی میڈیانے البتہ بڑی خوشیاں منائیں اورانتہائی گندی چال کے تحت ایران کی ایک ریفائنری کی وہ تصویر چسپاں کرکے میڈیامیںخبریں چلادیں کہ ہم نے ایران کو تقریباً تباہ کردیا۔ حالانکہ یہ ریفائنری جس سے آگ کے شعلے اوردھنویں کے مرغولے بلند ہوتے ہوئے دکھائے گئے ہیں یہ وہ ریفائنری ہے جس میں تین برس قبل 2021 میں آگ لگی تھی۔ اس پرانی تصویر کااسکرین پر نیتن یاہو اورجنرل گیلنٹ کونظارہ کرتے ہوئے دکھایاگیاہے جبکہ اسرائیلی میڈیا روزنامہ یروشلم پوسٹ اورروزنامہ ہیریٹیج (حارث)اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر اس قسم کی تصویر نظرنہیں آئی۔پتہ چلاہے کہ مغرب کے کچھ غیرجانب دار اور ایماندار صحافیوں نے اس کی اصلیت اجاگرکردی ان میں ایرانی خبررساں ایجنسی ارنا، الجزیرہ چینل قطر اورلبنان کا المنار چینل بھی شامل ہیں۔ ایران نے بڑے صبروضبط کا مظاہرہ ضرور کیاہے لیکن اس بزدلانہ حملے کے بعد ایران کے مذہبی پیشوارہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے اچانک پھر سامنے آکر تہران کے وسیع وعریض امام خمینی جمعہ مسجد کے احاطہ میں جمع لاکھوں کے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے ایران کے عزائم کا اظہار کیا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس حملہ کا جواب دینے کا اعادہ کیا۔ علامہ خامنہ ای نے ایک بارپھر امریکی صہیونی ومغربی میڈیا کے اس پروپگنڈہ کو جھوٹاثابت کردیا کہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد انہوں نے اپنا مستقر تبدیل کردیاہے۔نیز ایران سے کہیں دور کسی خفیہ مقام پر پناہ گزین ہوگئے ہیں تاکہ اسرائیل کے سیٹلائٹ حملے سے محفوظ رہیں۔
مومن کی خودی کی شان یہی ہے کہ خدا بندے سے جب پوچھنے لگے کہ اب اپنی رضابتادے۔ یہی تعلیم ہمارے آخری نبی ؐ کی تھی اورجب تک ہم اس پر کاربندرہے ہرزمانے میں ہمیں کامیابی ملی اب ایران اس صہیونی پٹاخے اورآتش بازی کاجواب کیسے دیتاہے ،انتظار کیجئے۔ ایران پر اس حملہ کی سعودی عرب نے کھل کرمذمت کی ہے اوراسرائیل کو سخت انتباہ دیاہے کہ وہ 1965 کی سرحدوں پر واپس چلاجائے لیکن وہیں کئی عرب ممالک خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیںجنہوں نے 25روز قبل اس قسم کے حملوں میں اسرائیل کا ساتھ نہ دینے کا وعدہ کیاتھا۔ اس حملے کے سلسلے میں قطر نے سخت مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ جنگ بندی کے سلسلے میں دوحہ میں چند گھنڈے قبل جو میٹنگ شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیلی وزیردفاع گیلنٹ شریک تھے ایک بارپھر اس منصوبہ پر پانی پھر گیاہے۔
اسرائیل کے اس حملے کو ماہرین کا کہناہے کہ یہ اسرائیل کی گھبراہٹ اوراپنی افواج کے اندرپھیلی بدامنی ،خوف،اورفوجیوں کا محاذ پر جانے سے انکارہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایک سوپچاس اسرائیلی فوجیوں کے گروپ نے نیتن یاہو کی مخالفت کرتے ہوئے نسل کشی کیلئے محاذ پر جانے سے نہ صرف انکار کیاہے بلکہ اس کیلئے ایک دستخطی مہم بھی چلارکھی ہے۔ روزنامہ یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج نیتن یاہو کی نسل کشی سے پریشان ہتھیار ڈالنے کے مونڈمیں ہیں۔ کیونکہ نیتن یاہو اپنے ذاتی مفاد کے خاطر فلسطینیوں کا قتل عام کرارہاہے۔ ان میں صہیونی فوج میں شامل زنانہ بریگیڈبھی ہیں۔ نیتن یاہو ان فوجیوں کو دھمکیاں دے رہاہے اوران کی پنشن ختم کردینے کابیان دیتے ہوئے کہاکہ اس سلسلے میں مقدمہ بھی چلایاجائے گا، لیکن ایک خاتون سارجنٹ نے اپنے خط میں نیتن یاہو سے عورتوں اوربچوں کے قتل عام سے رک جانے کا مشورہ دیاہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ :ہمارا حوصلہ اب جواب دے چکاہے۔
ایک طرف اسرائیل نے جبالیہ کیمپ کو خالی کراکر وہاں بہت بڑا اپنا ایک فوجی اڈہ بنانے کی کوشش کی ہے تووہاں گزشتہ دس دنوں سے مزاحمتی تنظیموں کے ذریعہ منھ کی کھانی پڑرہی ہے۔ اس کیمپ پر دھاوابولنے والے کتنے مرکاواں ٹینکوں اوربکتر بند گاڑیوں کا حماس نے قبرستان بنادیاہے۔ ایک ایک دن میںتیس سے پچاس صہیونی فوجی یہاںمارے جارہے ہیں ،اس کے بدلے اسرائیلی فوج کیمپ میں معصوم بچوں اورعورتوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے۔ متحدہ اقوام کے وہاں بچ جانے والے واحد اسپتال کو بھی دشمن افواج نے بموں سے اڑادیاہے۔ گیس اور آکسیجن کی سپلائی لائن پہلے ہی کاٹ دی گئی تھی۔
اب عالمی ادارہ صحت کے کارکنان اورڈاکٹروں کو بھی صہیونی یہ الزام لگاکر موت کی نیند سلارہے ہیں کہ ان کا تعلق حماس سے تھا اورخفیہ طور پر یہ لوگ مزاحمتی گروپوں کیلئے کام کررہے تھے، متحدہ اقوام نے اس پر سخت نوٹس لیا اوراسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کرکے اسے نسل کشی کا مرتکب قرار دیاتو نیتن یاہو نے متحدہ اقوام کے سکریٹری جنرل کو صہیونیوں کا دشمن قرار دیتے ہوئے ان کو اسرائیل میں داخل ہونے پر پابندی لگادی ا ورانہیں ویزہ نہ دینے کا حکم بھی جاری کردیا۔
جب السنوار کی شہادت کے بعد بھی نتین یاہو غیور اورخودار فلسطینیوں کی ہمت توڑنے میں ناکام رہا تو شمالی غزہ کے لوگوں کو اس نے ایک بارپھر بھوک اورپیاس سے تڑپاکر ماردینے کی ٹھان لی ، اس وقت ہرطرف سے محاصرہ کرکے وہاں غذائی وطبی امداد مکمل طو رپر بند کردی گئی ہے۔ اس لیے وہاں لوگ فلسطین کے محاصرے کے بعد اب لاشوں کے لئے کفن بھی ناپید ہوگئے ہیں۔ کمبلوں اورچادروں کے علاوہ بچوں کو انہیں کے لباس میں دفن کرنے پر قوم مجبور ہے لیکن ان کے حوصلے ٹوٹے نہیں ہیں بلکہ اور مضبوط نظرآرہے ہیں۔ حال ہی میں روس میں ہونے والی برکس کانفرنس میں یوں تو 22 ممالک شریک ہوئے ،اس میں حماس کے نمائندے نے اس واقعات کا تفصیلی ذکرکرکے زبردست مذمتی قرارداد منظور کرالی۔ چین ،روس اورترکیہ نے کھل کر حماس کے حق میں بات کی اور فلسطین کو موجودہ زبوحالی سے جلد نکالنے اورجنگ بندی کی پرزور وکالت کی،اتنا ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی مظلوم اورغریب ممالک کے حق میں قراردادیں پاس کیں کیونکہ سرمایہ دار ممالک اقوام متحدہ میں اس طرح کے بل پاس نہیں ہونے دیتے ہیں۔ امریکہ اوراس کے ساتھ اپنے ویٹوپاور کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ،اس سے تیسری دنیا کے ممالک سخت نالاں نظرآئے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ موجودہ اقوام متحدہ کی پوزیشن سابق ’لیگ آف نیشن‘کی ہوکر رہ گئی ہے؟تو کیا اب برکس اس کا متبادل بن کر کھڑا ہوجائے گا؟
اسی منظرنامہ میں حزب اللہ نے تو اسرائیل کی جہاں افرادی طاقت کو بری طرح متاثرکرکے شمالی اسرائیل کو خالی کرالیاہے۔ دس ہزار صہیونی آباد کار وں کو ملک چھوڑ نے پر مجبور کردیا ہے اور جہاں سے آئے تھے وہیں اپنے ان ملکوں کو تیزی سے ہورہے ہیں۔ بہت سے جابھی چکے ہیں تو لبنان میں گوریلاطور پر لڑی جانے والی جنگ صہیونی افواج کی صف کی صف کاٹ کر رکھ رہی ہے۔ صہیونیوں کے اتنے اسلحے، گولے بارود ،ٹینک اورمیزائلیں تباہ ہورہی ہیں کہ اسلحہ گودام خالی ہوچکے ہیں۔ آئیرن ڈوم کو تو حماس نے پہلے ہی ناکارہ بنادیاتھااب امریکہ نے اسرائیل کے گڑگڑانے پر اپنا دوسرا فضائی دفاعی نظام ’تھاڈ‘دے دیاہے۔ لیکن حزب اللہ کے مجاہدین نے اسے بھی ناکارہ بناناشروع کردیاہے تو امریکہ بہادر نے پھر ایک دوسرا تھاڈ نظام اسکے حوالے کردیاہے۔ ایک طرح سے دیکھاجائے تو حماس ،حزب اللہ،حوثی انصاراللہ اورجہاداسلامی تنظیم عراق سے امریکہ ہی لڑرہاہے۔ اسرائیل اب گھٹنوں کے بل آچکاہے۔ لبنان میں ایک انچ بھی زمینی جنگ میں صہیونی پیش قدمی کرنے سے قاصر رہے ہیں تو غزہ میں آبادیوں کو کھنڈرمیں تبدیل کرنے کے باوجود اپنے ایک بھی یرغمالی کو رہا نہیں کراپائے ہیں۔ مالی طور پر اسرائیل دیوالیہ ہوچکاہے، اس کی جی ڈی پی گھٹ کر .07فیصد پر آگئی ہے۔ امریکی روٹیوں پر اس کے شہری زندہ ہیں۔
اسی لئے گھبراکر اسرائیل اب لبنان میں زمینی جنگ بندکرنے پر غور کررہاہے۔ ایسی خبریں واشنگٹن پوسٹ اسرائیلی اخبار حارث اورچینل بارہ پر بھی دیکھی گئی ہیں۔ یہ طاقت ہے غیور حماس ،حزب اللہ ،حوثی انصاراللہ اوردوسرے مزاحمتی گروپوںکی خودداری کی۔جس کی زد میں امریکہ بہادر جرمنی، برطانیہ اوراسرائیل سب آچکے ہیں۔