میرے ہی سینے میں اترے ہیں خنجر سارے: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

فکر ملک و قوم اور انسان کے ذہنی افق کا پتہ دیتی ہے، اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ملک اور قوم کامستقبل کیا ہوگا، چونکہ مستقبل کا انحصار اولاً فکراور ثانیاً عمل پر ہے،اس لیے فکر کی افزائش اور اس کے تار و پود کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فکری تصادم ہمیشہ سے رہاہے اور ہمیشہ رہے گا ،فکر اور عمل میں فرق یہ ہے کہ فکرعمل کی بنیاد ہوتی ہے،اب اگر فکر تعمیری ہے تو اس کے نتائج تعمیری ہوں گے لیکن اگر فکرتخریبی اور ایجنڈائی ہے تو ایسے میں اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔یہ بھی سچ ہے کہ عملی غلطی چھوٹی ہوتی ہے جس میں اصلاح کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے جبکہ فکری غلطی بڑھی ہوئی ہوتی ہے ،کیونکہ انسان کسی غلط راہ کو درست سمجھ کر جب اس پر چل نکلتا ہے تو واپسی کے سارے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔
اس وقت ہندوستان کے حکمراں جس راہ پر نکل چکے ہیں وہ در اصل فکری غلطی کا شاخسانہ ہے،نفرت کا جو بازار گرم ہے اس کے پس پشت ایک آئیڈیا لوجی ہے اور اس آئیڈیالوجی کے پیچھے ایک مقصد ہے،جس کی تکمیل کے لیے سب ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں مگر اس ہاتھ پاؤں مارنے کے عمل میں ہندوستان تہہ و بالا ہوتاجا رہا ہے،چونکہ ایسا کرنے والوں کی فکر یہ ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں درست کر رہے ہیں، اس لیے ملک کے اس تہہ و بالا ہونے کو وہ اپنی حصولیابی تصور کر رہے ہیں۔
حزب اختلاف کی باتوں کو سیاست پر محمول کیا جاسکتا ہے اور غالب گمان بھی یہی ہے کہ وہ سیاست کررہی ہو لیکن اگر باتیں سچی ہوں تو اس کو سیاست کے دائرے سے نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔راہل گاندھی نے حال ہی میں امریکہ میں رہنے والے ہندوستانیوں کو خطاب کیا جس میں انہوں نے اسی فکری تصادم کی بات کی، انہوں نے کہا کہ ملک میں دو فکروں کے مابین جنگ چل رہی ہے۔ایک طرف گاندھی وادی لوگ ہیں اور دوسری جانب گوڈسے کے ماننے والے ہیں۔ان کا یہ چھوٹا سا جملہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف ہندوستان کو متحد کرکے اکھنڈ بھارت کے نظریہ کو حقیقت کی شکل دینے والے اورنگ زیب ہیں،جن کی اخلاف میں بہادر شاہ ظفر جیسا شخص ہے جس کی قیادت میں پہلی جنگ آزادی لڑی گئی ،جس کا نام لینے پر آئینی سطح پرکوئی پابندی نہیں،لیکن اس کے نام کا وہاٹس ایپ اسٹیٹس تک ریاست کو پسند نہیںاور مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ اعلان کرتے ہیں کہ یہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ ریاست کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے، وہ اس فکر کے خلاف ہیں،ان کے بیانات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ تاریخ پڑھنا بھی جرم قرار دے دیا جائے گا کیونکہ ہندوستان کی تاریخ کے یہ ناقابل فراموش کردار ہیں لیکن دوسری جانب آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد اور قاتل ناتھو رام گوڈسے ہے ،جسے ہندوستان کی عدلیہ نے پھانسی کی سزا دی تھی،اسی حکمراں ٹولے کا کوئی عام شخص نہیں بلکہ اترا کھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ ترویندر سنگھ راوت کھلے عام کہتے ہیں کہ وہ دیش بھکت تھا،اسی پارٹی کی ممبر پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر جو دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ رہی ہیں بابائے قوم کی توہین کرتی ہیں تو وزیراعظم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ پاتے کہ دل سے معاف نہیں کرپاؤں گا۔اسی ملک میںناتھو رام جیسے ہنسا کے پجاری کا مندر بنایاجاتا ہے،شہیدی دیوس پرہر سال کہیں نہ کہیں بابائے قوم کو علامتی گولی ماری جاتی ہے،اس وقت خبر گردش میں رہتی ہے، اس کے بعد ایسے افراد کے خلاف کیا کارروائی ہوئی کوئی نہیں جانتا۔ایک پورے طبقے کو حاشیے پر پہنچا دیا گیا،ان کے خلاف پورے معاشرے میں جو نفرت پھیلائی جاتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،ملک سیکولر ہے،جہاں جمہوریت کا راج ہے، اس کے باوجود کھلے عام ہندو راشٹر کی بات کی جاتی ہے،اس کی ریاست کا اعلان کیا جاتا ہے مگر سب خاموش رہتے ہیں مگر دوسری جانب صرف شک کی بنیاد پرقید و بند کی صعوبتیں دی جاتی ہیں۔
حکومت چونکہ غیر جانبدار ہوتی ہے اور قومی علامات اور ملک کی عدالتوں کے فیصلوں کے احترام کی امین ہوتی ہے اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے ہر دو افراد کو سزائیں دی جاتیں ،مہاتما گاندھی صرف ایک فرد نہیں ہیں وہ آج بھی دنیا میں ہندوستان کی سب سے بڑی علامت ہیں،ان کی تعلیمات ،ملک سے ان کی محبت،انسان اور انسانیت کا درد اور انسانیت کو درس اخلاق دنیا کو اپنی جانب نہ صرف راغب کرتا ہے بلکہ غیر ملکیوںکو ’’گاندھی مطالعات ‘‘کے لیے ابھارتا ہے کہ کس طرح اپنے اخلاق سے انہوں نے انگریزوں کو قدم پیچھے کھینچنے پر مجبور کردیا تھا۔ان کی تعلیمات کوفروغ دینے کے بجائے ایسے افراد کو بطور قومی ہیرو سامنے لایا جا رہا ہے جنہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ملک میں جو بھی ہو رہا ہے وہ سب دو فکروں کے تصادم کے علاوہ کچھ نہیںہے۔اس فکری تصادم میں صرف ایک قوم نشانہ نہیں ہے بلکہ ہر وہ فرد اور تنظیم اس کی زد پرہے جو اس کی مخالف ہے۔جس سے نقصان ملک کے سوا کسی اور کا کچھ نہیں،سارے نشتر،تیر و تبراور چمکتے ہوئے خنجر اسی ہندوستان کے سینے میں پیوست ہورہے ہیں اور وہ زبان حال سے کہنے پر مجبور ہے ’’میرے ہی سینے میں اترے ہیں خنجر سارے۔‘‘
ہندوستان متنوع رنگ و نسل ،زبان و ثقافت اور مذہب کا حامل ہے، اس لیے اس کی فکر میں بھی تنوع پایا جاتا ہے،اس تنوع کو ختم کرکے یک رنگی کی فکری اور عملی بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ریاستی جبری کوشش کی جا رہی ہے تو مبالغہ نہ ہوگا ،اس کے لیے ریاست سے ملی طاقت کا غیر اخلاقی استعمال کیا جا رہا ہے۔اخلاقی اور غیراخلاقی کا لاحقہ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست نے قانون سازی کی طاقت مقننہ کو دی ہے ،اب اگر مقننہ میں اکثریت ایک ہی فکر کے حامیوں کی ہوجائے جس فکر کی پرداخت میں ایک صدی کا عرصہ لگایا گیا ہو تو ان کی اکثریت حیرت انگیز بھی نہیں۔ ایسے میں ایک فکر کے حاملین جن کی اکثریت مقننہ میں ہو وہ دوسری فکر کے خاتمہ کے لیے کوئی بھی قانون سازی کرسکتے ہیں۔ قانوی طور پر یہ قانون سازی درست ہے لیکن اخلاقی سطح پر ہمیشہ اس پر سوالیہ نشان لگایا جائے گا۔اس کی مثال متعدد ریاستوں میں یکساں سول کی جانب پیش رفت،جبری تبدیلیٔ مذہب(تبدیلیٔ مذہب قانون کی موجودگی میںنئے قانون کی توضیع جسے لوجہاد کا نام دیا گیاہے)اور مرکز کی سطح پرطلاق ثلاثہ پر بل وغیرہ ہیں۔اسٹیٹ کی منشا ء پر عمل کرتے ہوئے انتظامیہ کا کسی خاص طبقہ کو نشانہ بنانا اگرچہ اس میں بھی وہ قانون کا سہارا ہی لیتے ہیں مگر یہی قانون دوسری جگہ عمل نہیں کرتا ہے، جس کی بہت سی مثالیں ہیں۔اسی ’لوجہاد‘ کے معاملے میں مسلمانوں پر سیکڑوں مقدمات ہوچکے ہیں جبکہ اس کے برعکس اسی طرح کے معاملے میں برادران وطن پر مقدمات صفر ہیں،اسی طرح مساجد سے اذان اورکھلے مقامات پر نماز کے ساتھ ہی عبادت گاہوں کے قیام کا معاملہ ہے۔ایک مذہب کے ماننے والے جب جہاں چاہیں خواہ سرکاری زمین ہی کیوں نہ ہو عبادت گاہ بناسکتے ہیں ،یہاں تک کہ سرکاری دفاتر میں خاص جگہ کا تعین بالکل عام بات ہے،تھانوں میں ایسی عبادت گاہیں لازمی جز بن چکی ہیں مگر قانون صرف ایک جگہ عمل کرتا ہے۔
حکومت کی بیداری اورقانون کی عملداری یہ بھی ایک مثال ہے کہ منی پور میں دو طبقات میں تشدد ہوا،سیکڑوں افراد مارے گئے ،کروڑوں کی املاک نذر آتش کی گئی،عوام بے گھر ہوئے مگر اعیان حکومت کرناٹک الیکشن میں مصروف رہے،مرکز نے اس معاملے میں کتنی پھرتی دکھائی؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے،منی پور رہ رہ کر ابھی تک تشدد کی آگ میں جل رہا ہے،مگر چونکہ یہاں یکطرفہ ووٹ کا مسئلہ نہیں تھا، یہاں فکر کے مطابق سامنے ایسا دشمن نہیں تھا جس سے پولرائزیشن کا امکان ہو، اس لیے انتظامیہ نے بہت سکون کے ساتھ کام کیا،اس سکون کا یہ عالم رہا کہ خواتین نے سلامتی دستوں کو گاؤں میں داخل ہونے سے روک دیا کہ آپ لوگوں کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں،ہمیں یقین تھا کہ آپ ہمارا تحفظ کریں گے مگر ایسا نہیں کیا تو اب آپ لوگوں کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔دوسری جانب این آر سی کے معاملے میں جس طرح سے مرکزی و ریاستی حکومتوں نے ماورائے آئین سزائے دیں، گھروں کو منہدم کیا، چھاپے مار کارروائیاں ہوئیں، عورتوں اور بچوں کو زد و کوب کیا گیا، مظاہرین کو سلاخوں کے پیچھے پہنچایا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ حکومت کی روش اور اس کے طرز عمل نے یہ واضح کردیا ہے کہ واقعی ملک میں اس وقت دو فکروں کا تصادم ہے اوریہ فکری تصادم ملک کو تباہی کی جانب لے کر جا رہا ہے،جس سے ملک کو اسی وقت بچایا جا سکتا ہے جب انسانیت اور محبت کو فروغ دیا جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے ایجنڈے کو عوام مسترد کردیں جس میں یک رنگی ہو کیونکہ ہمارے آئین نے یک رنگی کو مسترد کرتے ہوئے ہر فکر کے حاملین کو یکسانیت عطا کی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS