این ڈی اے کے خلاف ’انڈیا ‘ کی صف بندی : عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
اپوزیشن کی 26پارٹیوں کے اتحاد کا نیا نام جب سے”INDIA” (انڈیا)رکھا گیا ہے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر گھبراہٹ اور جھنجلاہٹ سی پیدا ہوگئی ہے۔ پہلے نریندر مودی کے لیڈران حزب اختلاف کے محاذ انڈیا کو زک دینے کے لئے طرح طرح کے بیانات دینے لگے۔ بہتوں نے تو اپنے ٹوئیٹر سے انڈیا ہٹا کر بھارت کردیا، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی “Skill India'(اسکیل انڈیا)، Digital India’ (ڈیجیٹل انڈیا)، Khelo India’ (کھیلو انڈیا)، ‘Start-up India'(اسٹارٹ اپ انڈیا)، ‘BJP for India'(بی جے پی برائے انڈیا)، Make in India” (میک ان انڈیا) جیسے نعروں کو اکثر و بیشتر استعمال کرتے تھے اب کیا وہ انڈیا کی جگہ ’بھارت ‘ استعمال کریں گے؟ ’انڈیا‘ لفظ کو ہٹا تو نہیں سکے، لیکن اپوزیشن کے مشترکہ نام انڈیا کو نیچا دکھانے کے لئے اس محاذ کوEast India Company, Indian Mujahedin, Populer Front of India, کے ناموں کو اپوزیشن کے اتحاد کے نام سے جوڑ رہے ہیں۔
کچھ عام لوگوں کا خیال ہے کہ انڈین مجاہدین کے نام سے ہندستان میں کسی تنظیم کا وجود نہیں ہے۔ یہ صرف ایک خاص فرقہ کو بدنام کرنے یا مورد الزام ٹھہرانے کے لئے اکثر و بیشتر استعمال کی جا رہی ہے۔ جہاں تک ایسٹ انڈیا کمپنی کا تعلق ہے وہ تو غلامی کی نشانیوں میں سے ہے۔اسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ آہستہ آہستہ ہندوستان میں انگریزوں کے پیر جمے اور ملک غلام ہوتا چلا گیا ۔ ڈیڑھ دو سو سال تک انگریزوں کی غلامی کو ملک برداشت کرتا رہا۔ مودی جی کو یہ بھی معلوم ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد کرنے کے لئے ’انڈین نیشنل کانگریس‘ نے جدوجہد کی اور ملک آزاد ہوا۔ اس کے برعکس سنگھ پریوار کے کئی چھوٹے بڑے لیڈران تھے وہ انگریزی حکومت کے وفادار تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے معافی مانگ مانگ کر جیل سے رہائی حاصل کی۔
اس پر وپیگنڈے کے خلاف کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہا ہے کہ ’’ہمارے اتحاد ’انڈیا‘ کو آپ جو چاہیں کہیں، مگر ہم انڈیا ہیں اور منی پور کے زخموں پر مرہم رکھیں گے اور وہاں کی ہر عورت اور ہر بچہ کے آنسوؤں کو پونچھ کر رہیں گے۔ وہاں پیار اور محبت، امن و امان کا ماحول پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ انڈیا کا آئیڈیا منی پور میں بھی جلوہ گر ہوگا‘‘۔
مقتدر طبقہ کی گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ اس لئے ہے کہ ان کی ’این ڈی اے‘ ’انڈیا‘ کے سامنے ماند پڑ رہی ہے۔ این ڈی اے کا وجود ختم پر تھا، لیکن انڈیا کے مقابلے میں اسے لانے کے لئے بی جے پی اور ان کے لیڈروں نے بھرپور کوشش کی۔ جیسے تیسے 38پارٹیوں کے اتحاد کا بھی دہلی میں اعلان کردیا۔ ’این ڈی اے‘ بی جے پی کے اتحاد کا نام ہے اور اس اتحاد سے تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں نکل چکی تھیں۔ اب جن پارٹیوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے ان میں کچھ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جن کے ایک ایم ایل اے یا ایم پی بھی نہیں ہیں۔ کچھ ایسی پارٹیاں ہیں جن کے دونوں ٹکڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ محض تعداد بڑھانے کے لئے کیا گیا ہے، مگر اس اتحاد میں کسی طرح جان پیدا نہیں ہوئی ۔گھبراہٹ اور جھنجلاہٹ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکمراں پارٹی قوم پرستی کو اپنی اجارہ داری سمجھتی ہے۔ انڈیا اس اجارہ داری کے خلاف بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس چیلنج سے ان کو لگتا ہے کہ ان کی اجارہ داری ختم ہورہی ہے یا ماند پڑرہی ہے۔
قوم پرستی پر ان کی سب سے بڑی مونوپولی ہے یا مسلم دشمنی۔ مسلم دشمنی پر تو کوئی ضرب لگ نہیں رہی ہے لیکن انڈیا کا نام پر دراصل ملک کے اتحاد اور ملک کی ساری اکائیوں کو جوڑنے کا غیر معمولی اشارہ ہے جس سے ضرب لگ رہی ہے۔ جو پارٹی ملک کے لوگوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہو اور رات دن ہندو مسلمان کرکے انتخاب لڑنا چاہتی ہو۔ تعصب، نفرت اور عداوت ایک دوسرے کے خلاف پیدا کرنا چاہتی ہو اس کے لئے اتحاد و اتفاق، میل ملاپ، بھائی چارہ سوہانِ روح ہے۔ انڈیا جیسے نام کی جگہ کوئی نام ہوتا تو شاید نریندر مودی اور ان کی پارٹی ہضم کرجاتی، مگر انڈیا کو ہضم نہیں کر پارہی ہے۔ گڑے مردے اکھاڑ کرلفظ ’انڈیا‘ کو داغ دار کرنا ضرور چاہا، لیکن بی جے پی نے خود ’انڈیا،انڈیا‘ کا راگ اتنی مرتبہ الاپا ہے کہ ان کے منہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی یا انڈین مجاہدین کا لفظ کسی بھی طرح اچھا نہیں لگتا۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی لیڈران حقیقت میں ان ناموں کا استعمال کرکے احساس خود شکستگی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی نے نریندر مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لگتا ہے مودی کواپوزیشن کے اتحاد کا نام (انڈیا) بیحد پسند ہے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں جو بھی نام رکھیں خواہ ’انڈیا‘ یا ’بھارت‘ مودی اور ان کی پارٹی انڈیا اور بھارت کو اپنی اجارہ داری سمجھتی ہے اور اس اجارہ داری پر کسی قسم کا حملہ اس کے لئے ناقابل برداشت ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ راہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ شروع کی تھی، اس وقت بھی لفظ بھارت کا خیر مقدم نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان کی پارٹی نے بلکہ بھارت جوڑو یاترا کا مذاق اڑانے میں بی جے پی پیش پیش تھی۔ مگر اس کے اثرات اتنے زبردست ثابت ہوئے کہ کرناٹک کے الیکشن پر اس کا غیر معمولی اثر پڑا۔ نریندر مودی اور امیت شاہ اور ان کی پارٹی کے ذریعہ تمام ہتھکنڈوں کے استعمال کرنے کے باوجود ناکام ثابت ہوئی اور کانگریس بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ ’بھارت جوڑو‘ یاترا کا اثر اپوزیشن کے اتحاد پر بھی پڑا۔ بھارت جوڑو یاترا کا ہی نتیجہ تھا کہ ’انڈیا‘ جیسا نام اتحاد کی علامت بن گیا ہے۔مودی جی اور ان کی پارٹی کو یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ اٹل بہاری واجپئی نے ’شائننگ انڈیا‘ کا نعرہ دیا تھا، مگر بی جے پی انڈیا کو شائن کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ نریندر مودی کے ذریعہ اگر ایسٹ انڈیا کمپنی اور انڈین مجاہدین کا نام لیا جارہا ہے تو اس کے ساتھ شائننگ انڈیا کو بھی جوڑنا چاہئے تھا کہ شائننگ انڈیا بی جے پی کے ماتھے پر ایک کلنک ثابت ہوئی تھی اور عوام نے ان کی شائننگ انڈیا کو رد کردیا تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS