علی گڑھ کا سانحہ

0

ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں گزشتہ ہفتہ پیش آنے والا واقعہ اس زوال پذیر سیاسی اور سماجی منظرنامے کی علامت ہے جس میں نفرت، جنون اور تعصب نے نہ صرف قانون کی حکمرانی کو پامال کیا بلکہ انسانی شرافت اور ضمیر کی آخری رمق تک کو خاک میں ملا دیا۔ چار مسلمان شہری جو علی الصباح معمول کی تجارتی نقل و حمل میں مصروف تھے، ایک مشتعل اور مسلح ہجوم کے ہاتھوں نہ صرف درندگی کا شکار ہوئے بلکہ انہیں سرعام بے لباس کر کے، سڑک پر گھسیٹ کر اور لوہے کی سلاخوں سے پیٹ پیٹ کر نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ جرم؟ فقط یہ شبہ کہ وہ گاڑی میں گائے کا گوشت لے جا رہے تھے۔

جب علی گڑھ کے مضافاتی علاقے الہدپور اسٹیڈیم کے قریب ایک گاڑی کو روکا گیا تو اندر سوار چاروں افراد نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کا جرم ان کا نام، ان کی شناخت اور ان کی مذہبی پہچان بن جائے گا۔ بجرنگ دل اور اکھل بھارتیہ ہندو سینا سے وابستہ تقریباً پچاس افراد کے ہجوم نے پہلے ان سے زبردستی پچاس ہزار روپے مانگے، پھر انکار پر وحشیانہ تشدد کا آغاز ہوا۔ لوہے کی سلاخیں، لاٹھیاں اور لاٹھیوں سے لیس یہ درندے سلیم، عقیل اور ان کے ساتھیوں کو گلیوں میں گھسیٹتے رہے۔ انہیں برہنہ کیا گیا، ان کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی، ان کے موبائل اور نقدی چھین لی گئی اور خون میں تر سڑک ان کی بے بسی کا گواہ بنی۔

پولیس، جو ریاست کی اخلاقی اور قانونی بالادستی کی ضامن ہونی چاہیے تھی، مجرموں کے ساتھ کھڑی پائی گئی۔ وہ دیر سے پہنچی مگر جب پہنچی تو زخمیوں کو بچانے سے پہلے ان کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کی۔ ان پر گائے کا گوشت لے جانے کا مقدمہ قائم ہوا۔حالانکہ موقع پر موجود دستاویزات اور ٹرانسپورٹ پرمٹ قانونی اور مکمل تھے۔ مزید یہ کہ جب گوشت کا نمونہ جانچ کیلئے متھرا بھیجا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھینس کا گوشت تھا جس پر کوئی قانونی پابندی نہیں۔

اس واقعہ کے کلیدی حملہ آور رام کمار آریہ اور ارجن عرف بھولوکی شناخت عینی شاہدین نے کی اور ان سمیت تیرہ افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف ایف آئی آر اور لیباریٹری رپورٹس اس خون آشام فرقہ واریت کا جواب ہو سکتی ہیں؟
افسوس اس بات کا نہیں کہ ایک اور مسلمان ہجوم کے تشدد کا نشانہ بنا بلکہ المیہ یہ ہے کہ ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ دادری میں محمد اخلاق سے لے کر پہلو خان، تبریز انصاری، جنید، آصف، اکبر اور اب علی گڑھ کے یہ چار نوجوان۔ ہر بار کہانی وہی ہے، کردار بدلتے ہیں، مقامات بدلتے ہیں، لیکن ظلم کا محرک، خاموشی کا ردعمل اور قانون کا جھکاؤ ایک سا رہتا ہے۔ ہر واقعہ کے بعد وہی روایتی بیانات، وقتی گرفتاریاں پھر ضمانت پر رہائی اور قاتلوں کا ہار پہنا کر استقبال کیاجاتاہے۔

یہ وہی نظام ہے جس میں گائے کو ماں کہا جاتا ہے اور انسان کو کچلا جاتا ہے۔ جس میں آج ذبیحہ گائے سے زیادہ بڑا جرم مسلمانوں کا وجود بن چکا ہے۔ جہاں اخلاقیات، قانون اور تہذیب سب کچھ صرف اکثریتی مزاج کی خوشنودی پر قربان کیا جا رہا ہے۔ جہاں اقلیتوں کو شک کی بنیاد پر نہ صرف مارا جاتا ہے بلکہ مارنے والوں کو نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کیا، گجرات میں خون کی ندیاں بہائیں، دہلی کے فسادات میں معصوموں کو جلا کر راکھ کر دیا اور اب سڑکوں کو قتل گاہ میں بدل دیا ہے۔

ان وحشیانہ واقعات پر حکومت کی خاموشی اور اکثریتی سماج کا ضمیر کی سطح پر بے حس ہوجانا بھی ایک خطرناک فسطائی اخلاقیات کی پرورش ہے۔ فرقہ پرست تنظیمیں صرف نعرے نہیں لگاتیں بلکہ ایک مکمل نظریہ مسلط کر رہی ہیں۔ایک ایسا نظریہ جو اقلیتوں کی شہری حیثیت کو مشکوک بناتا ہے جو شناخت، خوراک، لباس، عبادت اور کاروبار سب پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ وہ جو ماب لنچنگ کے مناظر پر خاموش ہیں، وہ صرف مظلوم کا ساتھ نہیں چھوڑتے بلکہ اپنے جمہوری حق کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرتے ہیں۔

یہی وہ وقت ہے جب معاشرہ اپنے آپ سے سوال کرے کہ کیا ہم ایک ایسے ہندوستان میں جی رہے ہیں جہاں شک کی بنیاد پر موت دی جاتی ہے؟ کیا ’’وشو گرو‘‘ بننے کی خواہش رکھنے والا ملک اپنے شہریوں کو بنیادی تحفظ بھی نہیں دے سکتا؟ کیا ایک ریاستی ڈھانچہ صرف اس لیے موجود ہے کہ وہ اکثریتی جنونیت کو قانونی تحفظ دے اور اقلیتوں کے زخموں پر نمک چھڑکے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر خاموشی جرم ہے اور اگر جواب اثبات میں ہے تو ہمیں مان لینا ہوگا کہ ہم جمہوریہ نہیں ہجوم راج میں جی رہے ہیں۔
علی گڑھ کا یہ سانحہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہمارے عہد کا سب سے بھیانک چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ چہرہ جو عدالت کی جگہ لاٹھی، آئین کی جگہ ہجوم، انصاف کی جگہ افواہ اور شہری وقار کی جگہ مذہبی تعصب کو رکھ چکا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS