ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
صحافت اور جمہوریت کا تعلق باہم بہت گہرا ہے۔ ایک آزاد صحافت کے بغیر مضبوط جمہوریت کا تصور بالکل ناممکن ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صحافت ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ واقعات کے پیچھے کی حقیقت کا پردہ فاش کرے اور عوام کو ارباب اقتدار کی پالیسی سازی سے باخبر رکھے تاکہ جمہوریت اندھیرے میں دم نہ توڑ دے۔ میڈیا اور صحافت کی یہی وہ طاقت ہے جس کے خوف سے فرانس کا عبقری جنگی قائد نپولین بوناپارٹ بھی لرزاں رہتا تھا۔ بوناپارٹ نے ایک بار کہا تھا کہ ایک لاکھ جنگجوؤں سے میں اتنا خائف نہیں ہوتا ہوں جتنا کہ تین اخبارات کی قوت سے مجھے ڈر لگتا ہے۔
اسرائیل کے صہیونی، اس کی جنگی کابینہ، نیتن یاہو اور اس کے تشدد پسند سیاسی حلفاء جن کی اکثریت صہیونت کے پروردہ ہیں وہ سبھی لازمی طور پر بوناپارٹ کے اس مقولہ سے واقف ہوں گے اور اسی لئے انہوں نے 7 اکتوبر کے بعد پہلی بار غیر معمولی یکجہتی اور باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحدہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ’الجزیرہ‘کو بند کیا جائے اور مقبوضہ شہر قدس سے اس کی تمام تر نشریات پر پابندی عائد کر دی جائے۔ حالانکہ اس پابندی کا اثر بہت زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ حادثات کو کور کرنے کے وسائل کی ان دنوں کمی نہیں ہے۔ ویسے بھی اس کا زیادہ سے زیادہ اثر ’الجزیرہ‘ عربی پر محدود حد تک پڑے گا۔ بس وہی لوگ اس سے محروم ہوپائیں گے جو اسرائیل میں رہتے ہیں اور مقامی نظام نشر و ابلاغ پر انحصار رکھتے ہیں۔ جہاں تک ’الجزیرہ‘ انگریزی کا تعلق ہے تو اس کی نشریات کو روک پانا بالکل ناممکن ہوگا کیونکہ زیادہ تر مشاہدین عالمی نیٹ ورک کے ذریعہ اس تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس پر اسرائیل کا کنٹرول نہیں ہے۔ اس کے باوجودنیتن یاہو اور اس کے اتحادی ’الجزیرہ‘ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ’الجزیرہ‘ نے روز اول سے ہی اپنے سامنے پیشہ وارانہ مہارت کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ اس کے سامنے کوئی دوسرا میڈیا ہاؤس اپنا وجود قائم نہیں رکھ پایا ہے اور اسرائیل اور مغرب دونوں کا جھوٹ طشت از بام کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اسرائیل اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ صحافت اور بطور خاص ’الجزیرہ‘ میں کتنی قوت تاثیر ہے۔ اسرائیل بہت قریب سے دیکھ رہا ہے،کیونکہ مغربی میڈیا کی طرح ’الجزیرہ‘ کو قابو میں کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ چونکہ ’الجزیرہ‘ کی وجہ سے نہ صرف امریکہ و مغرب کا دوہرا معیار دنیا کے سامنے اجاگر ہو چکا ہے بلکہ خود اسرائیل کا اندرونی انتشار اور اس کے بیانیہ کا پھسپھسا پن بھی واضح کرنے میں ’الجزیرہ‘نے اپنا کردار نہایت پیشہ ورانہ ڈھنگ سے نبھایا ہے جس کا سیدھا اثر عالم عربی اور عالمی سطح پر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مبنی بر انصاف رائے عامہ کی تشکیل پر پڑاہے۔
ظاہر ہے کہ اس کا نقصان صہیونی پالیسی سازوں کو اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ وہ مسئلہ فلسطین کا سچ اب دنیا سے چھپا نہیں پا رہے ہیں جیسا کہ امریکی اور یوروپی یونیورسٹیوں میں جاری طلباء و طالبات کے احتجاجوں اور مظاہروں سے عیاں ہے۔ اسی لئے ’الجزیرہ‘ کو بند کرنا ہی اسرائیل کے مطابق آخری ہتھیار رہ گیا تھا۔ حالانکہ بوناپارٹ ہی کے انجام سے اسرائیل کو سبق لینا چاہئے تھا اور سمجھنا چاہئے تھا کہ بوناپارٹ اپنی تمام تر حیلہ بازیوں کے باوجود ایک شکست خوردہ جنگی قائد کی موت مرا تھا اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہا تھا۔ غزہ کے خلاف جاری اسرائیلی بربریت سے متعلق تمام واقعات اور قرائن بھی اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو کا انجام اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ اسرائیل نے ’الجزیرہ‘ پر پابندی عائد کرکے اپنے اس دعوے کے خلاف بھی دلیل قائم کر دی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں واحد جمہوریت ہے جہاں قانون کی بالادستی رہتی ہے اور تمام فیصلے جمہوری اصولوں کی پابندی کرکے لئے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آزاد اور انصاف پسند صحافت کا گلا گھونٹنے میں سب سے بدترین کردار اس جنگ میں اسرائیل ہی نے ادا کیا ہے۔ اب تک غزہ پر تھوپی گئی جنگ کو کور کرنے والے 141 صحافیوں کو اسرائیل نے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ اگر اس تعداد کا موازنہ چھہ برسوں تک جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس طویل مدت جنگ میں بھی اُس وقت صرف 69 صحافی جاں بحق ہوئے تھے۔ اس کے برعکس محض 7 مہینوں میں اسرائیل نے اس سے دوگنی تعداد کو قتل کر دیا ہے۔ اسرائیلی بربریت کا شکار ہونے والے صحافیوں میں ’الجزیرہ‘سے وابستہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اسرائیل عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پاسداری کتنی کرتا ہے یہ جگ ظاہر ہے۔ اس کے چہرے سے ایک کے بعد ایک فریب و جعل سازی کے سارے نقاب الٹ رہے ہیں اور اس کا بدبودار کردار دنیا کے سامنے ہر روز آتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے آج اسرائیل ایک اچھوت ملک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے اندر فلسطین کو مکمل رکنیت عطا کرنے کے لئے جو ووٹنگ ہوئی تھی اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی ہذیان پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ 143 ملکوں نے فلسطین کو عضویت عطا کرنے کے بارے میں اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔اگر ’الجزیرہ‘ پر پابندی کا مقصد رفح میں جاری بربریت کے واقعات کو چھپانا ہے یا قطر پر دباؤ ڈالنا مقصود ہے تاکہ وہ حماس کو اسرائیلی شرطوں پر جنگ بندی معاہدہ کے لئے آمادہ کرے تو یہ بے سود کوشش ہے کیونکہ جس مقصد کو اسرائیل جنگ سے حاصل نہیں کر پایا ہے اس کا حصول ان طریقوں سے ممکن نہیں ہے۔ مزاحمت کار مجاہدین خود اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس پابندی سے اسرائیل کی ناکامی اور اس کے اندر موجود خوف کا قصہ ہی مزید پھیلے گا۔
اس حقیقت کے علاوہ اسرائیل کا مکروہ چہرہ عالمی میڈیا کے سامنے اس وقت زیادہ واضح طور پر سامنے آ گیا جب ’الجزیرہ‘پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ اس دن لیا گیا جب پوری دنیا میں صحافت کی آزادی کا دن منایا جا رہا تھا۔ ایک اسرائیلی وزیر کے مطابق یہ فیصلہ اس دن جان بوجھ کر لیا گیا تھا۔ گویا کہ صہیونی نظریہ میں پوری دنیا کی قوموں کو ذلیل سمجھنے اور خود کو عالمی قیادت کا واحد حق دار سمجھنے کا جو بے بنیاد احساس برتری پایا جاتا ہے اس کا عکس اس فیصلہ میں بھی نظر آ رہا ہے۔ اگر اسرائیل کو جمہوری قدروں کی ذرا بھی پرواہ ہوتی اور صحافت کی آزادی اور اس کی اہمیت کے تئیں ادنی درجہ کی بھی سنجیدگی اس میں پائی جاتی تو اس دن کا احترام کرتا اور اگر اس کے پاس ’الجزیرہ‘ کے طرز عمل یا نشر و اشاعت کے معیار کے بارے میں شکایتیں تھیں تو مناسب اداروں سے رجوع کرکے ان کو حل کیا جا سکتا تھا۔ جمہوریت میں دوسروں کی رائے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ معروف دانشور نوم چومسکی نے کہا ہے کہ ’اگر آپ آزادی رائے میں یقین رکھتے ہیں تو پھر آپ کو ان آراء کی آزادی میں بھی یقین رکھنا ہوگا جن کو آپ پسند نہیں کرتے ہیں۔‘ سچائی یہ ہے کہ آزادی رائے اور انسانی حقوق کے نعرے بلند کرنے والا امریکہ خود اس معاملہ میں مجرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی اس غیر جمہوری اور مجرمانہ حرکت پر امریکہ مذمت کے چند الفاظ بھی پیش نہیں کر سکا۔ امریکہ بھلا ایسا کیسے کرتا؟ دنیا جانتی ہے کہ عراق اور افغانستان میں جب جارج ڈبلیو بش نہتھے عراقیوں اور افغانی عوام کو بموں سے چیتھڑوں میں تبدیل کر رہا تھا تو اس وقت بھی ’الجزیرہ‘ نے ہی اپنا کام ایمان داری سے کرتے ہوئے امریکی سپر پاور کا منحوس کردار دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس کی پاداش میں ’الجزیرہ‘ کے آفس پر امریکہ نے بمباری کرکے ایک صحافی کو شہید اور باقی کو زخمی کر دیا تھا۔ عراق اور افغانستان دونوں جگہوں پر امریکہ نے ’الجزیرہ‘ کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا جو اسرائیل نے صحافیوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ برطانیہ سے شائع ہونے والا اخبار ’ڈیلی میرر‘ اس بات کا شاہد ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم اور بش کے جرائم میں برابر کے شریک ٹونی بلیئر سے کہا تھا کہ وہ’الجزیرہ‘کے ہیڈ کوارٹر اور اس کے دیگر آفسوں پر بمباری کرے گا۔ اخبار کے مطابق ٹونی بلیئر نے بش کو اس جرم کے ارتکاب سے روکا تھا ورنہ ’الجزیرہ‘ کو امریکی بم کے نشانہ پر تقریباً ڈالا جا چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس ملک کی اپنی تاریخ اتنی داغ دار ہے وہ اسرائیل کے مجرمانہ عمل کے خلاف کیسے کوئی بیان دے سکتا ہے۔ دنیا تو یہ بھی جانتی ہے کہ غزہ میں صحافیوں کا قتل جن بموں اور گولوں سے کیا گیا وہ سارے ہتھیار امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں ہی نے اس کو مہیا کروائے تھے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اسرائیل اسی جرم کا ارتکاب کر رہا ہے جس کی مثال امریکہ نے قائم کی ہے اور اس کو نافذ العمل بنانے میں اپنا رول ادا کیا ہے۔
سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ’الجزیرہ‘ پر اسرائیلی پابندی کے بعد بعض عرب چینلوں نے بھی اپنی مسرت کا اظہار کیا اور اسرائیلی و صہیونی فکر کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر کی۔ یہ چینل انہی ممالک کے ذریعے چلائے جاتے ہیں جو اسلام دشمن صہیونیوں کے ساتھ دوستی کے تعلقات استوار کرنے میں حد سے آگے بڑھے جا رہے ہیں اور اسلامی غیرت و حمیت کو ہر روز اپنے پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ ان ممالک کو پہچاننا مشکل نہیں ہے کیونکہ قطر پر حصار قائم کرنے کے وقت بھی ان ہی ملکوں کا مطالبہ تھا کہ ’الجزیرہ‘ کو بند کیا جائے۔ شاید انہیں خوشی اس بات سے ہو رہی ہوگی کہ جو ہم نہیں کر پائے وہ صہیونی و امریکی آقاؤں نے کر دکھایا۔ یہ فکری انحطاط اور تہذیبی غلامی کی آخری حد ہے۔ انہیں اس بھیانک انجام کا انتظار کرنا چاہئے جو صہیونیوں کا مقدر بن چکا ہے۔ جہاں تک ’الجزیرہ‘ کا تعلق ہے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہزار قربانیوں کے باوجود بھی ’الجزیرہ‘ نے اپنی ذمہ داریوں کو مؤثر اور پیشہ وارانہ انداز میں ہمیشہ ادا کیا ہے اور ادنی درجہ کی کوتاہی یا خوف کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ ’الجزیرہ‘کی عظمت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ 1996 کے بعد سے جب یہ پہلی بار وجود میں آیا ہے تب سے لے کر آ ج تک کوئی مغربی میڈیا ہاؤس بھی اس کے مقابلہ اپنا وجود قائم نہ رکھ سکا۔ خواہ قدیم تاریخ رکھنے والی ’بی بی سی‘ اور ’این بی سی‘ ہو یا پھر خلیج جنگ میں مغربی ہتھیار کی طرح استعمال ہونے والا ’سی این این‘ ہو سب کے سب حاشیہ پر اوندھے منہ پڑے ہوئے ہیں اور’الجزیرہ‘ واحد ایسا چینل بن چکا ہے جس کی طرف مشاہدین حقیقت کی تلاش میں رجوع کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب ہو یا مشرق ہر جگہ ڈکٹیٹروں کے خلاف تازیانہ بن کر ’الجزیرہ‘کھڑا ہوا ہے۔ اس کی آواز کو روکنا اب تقریباً محال ہے۔ اسرائیل کو بس اس کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ اپنے جنگی جرائم سے کتنے دنوں تک خود کو محفوظ رکھ پائے گا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں