عمر رسیدہ سلمان رشدی کی تازہ داستان ’’خنجر‘‘: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

بدنام زمانہ مصنف سلمان رشدی اب اپنی زندگی کے 76ویں پڑاؤ پر کھڑا ہے اور اس بات کی قوی امید ہے کہ اگر آج سے تقریباً دو سال قبل نیو یارک شہر میں اگست 2022 میں ہادی مطر نامی24سالہ نوجوان نے اس پر خنجر سے حملہ کرکے زخمی نہ کر دیا ہوتا تو آج اس کو کوئی یاد بھی نہیں کر رہا ہوتا۔ نیویارک میں اس پر جو حملہ ہوا تھا، اس کی وجہ سے سلمان رشدی کی آنتیں متاثر ہوئی تھیں، ہاتھ تقریباً شل ہوگئے تھے اور بائیں آنکھ ہمیشہ کے لیے بے نور ہوگئی۔ لیکن اس حملہ کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ سلمان رشدی کو اپنی عمر کی اس منزل پر ایک نئی زندگی مل گئی۔1988میں سلمان رشدی کا وہ ناول شائع ہوا تھا جو ’’شیطانی آیات‘‘ کے نام سے معروف ہے اور مسلم دنیا میں یہ کتاب نہایت مبغوض اور اسلام مخالف سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس ناول میں رشدی نے اسلام کی مقدس ترین شخصیات کو اپنی ہرزہ سرائی کا نشانہ بنایا تھا۔ سیاسی طور پر یہ وہی زمانہ ہے جب ایران میں 1979 میں امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب بپا ہوا تھا اور مغرب بالخصوص امریکہ کے خلاف ایران نے اپنا محاذ کھول دیا تھا۔ امریکہ کے سارے پینترے ناکام ہوگئے تھے اور اس کے سفراء بھی ایران کے انقلاب پسند اسٹوڈنٹس کے احتجاج میں بری طرح پھنس گئے تھے اور اپنے مفادات سے امریکہ کو ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ ایران کے اس تازہ ایرانی انقلاب نے مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان خلیج فارس سے بھی گہری خلیج پیدا کر دی تھی۔ ابھی اس انقلاب کے چند برس ہی گزرے تھے کہ سلمان رشدی کا یہ ناول منظرعام پر آگیا۔ امام خمینی نے بجا طور پر اس کتاب کو اسلام کے مسلمات پر حملہ تصور کیا تھا اور 1989میں ایک فتویٰ جاری کیا جس کے تحت رشدی کی جان کو حلال قرار دیا گیا تھا۔ ہندوستان میں بھی اس کتاب کے خلاف سخت احتجاجات ہوئے تھے اور اسی وجہ سے اس کی طباعت اور خرید و فروخت پرپابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسی وقت سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا یہ فتویٰ سیاسی نوعیت کا تھا یا اس کے دینی پہلو تھے۔ برطانوی شہریت کا حامل رشدی اسی وقت سے بہت چھپ چھپ کر اپنی زندگی گزارتا رہا ہے تاکہ اسلام کے کسی شیدائی کا وہ نشانہ نہ بن جائے۔ جب اگست2022 میں رشدی ایک پروگرام میں شرکت کی غرض سے نیو یارک گیا ہوا تھا تو غالباً اسے یہ توقع نہیں تھی کہ اتنی طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی اس فتویٰ کا اثر باقی ہوگا اور وہ اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کا ذکر رشدی نے اس حملہ کے بعد کے مراحل کے ذکر پر مبنی اپنی تازہ ترین سرگزشت میں بھی کیا ہے۔ چونکہ اس پر خنجر سے حملہ کیا گیا تھا، اسی مناسبت سے رشدی نے اپنی کتاب کا نام”Knife: Meditations After an Attempted Murder” رکھا ہے۔ اس کتاب میں رشدی نے خنجر کے حملہ سے رو برو ہونے اور اس کے مابعد کے تجربہ سے گزرنے کی داستان کو بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ داستان ایک بار پھر اسلاموفوبیا کے مرکز مغربی معاشرہ میں رشدی کو ہیرو بنانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن کیا اس سے یہ حقیقت بدل جائے گی کہ رشدی نے اپنے قلم کا استعمال پوری زندگی منفی مقاصد کے لیے کیا ہے؟ رشدی کی تحریریں یقینا زبان و بیان کے معیار پر پوری اترتی ہیں اور اسی لیے اس کو مغربی دنیا میں اپنا مقام حاصل ہوا لیکن اس تلخ حقیقت سے بھی انکار کرنا مشکل ہے کہ اگر ہندنژاد اس برطانوی شہری نے اپنے ادبی سفر کو اسلام کے خلاف زہر افشانی اور مسلمانوں کے مقدسات کو پامال کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا ہوتا تو اس کو ہرگز وہ مقام نہ ملتا جس سے آج تک وہ لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اگرچہ آزادیٔ رائے کے کھوکھلے مغربی معیار کی بنیاد پر ہمیشہ رشدی اور اس کی تحریروں کا دفاع کیا گیا لیکن رشدی کو کبھی بھی عالمی سطح پر ایک مثبت فکر کے حامل ادیب کے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور انسانی معاشرہ کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کے لیے اس صنف ادب کا استعمال بکثرت ہوتا ہے جس کا استعمال سلمان رشدی نے کیا۔ البتہ یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ رشدی نے اپنی کتابوں اور ناولوں سے وہی کام لیا جو دنیا کے ممتاز قلم کاروں نے لیا ہے۔ مثلاً جین آسٹن نے اپنے ناولوں میں وکٹوریہ عہد کی خواتین کے جذبات کی عکاسی کی اور چارلس ڈکنس نے اس عہد کے بدلتے سیاسی و سماجی حالات کو بیان کیا جو آج بھی قارئین کے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور بجا طور پر کلاسکس کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر سلمان رشدی نے اپنے تصنیفی سفر کو اسی نہج پر جاری رکھا ہوتا جس کا آغاز اس نے اپنے پہلے ناول Midnight’s Children کے ذریعہ کیا تھا تو یقینا اس کی تحریریں اس لائق تھیں کہ اس کو وہی مقام ملے جو دنیا کے بہترین قلم کاروں کو نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اس نے مغربی دنیا کے اس منفی مزاج کے استحصال کو ترجیح دی جس میں اسلام دشمنی بھری پڑی ہے۔ وہ خود کو جلد سے جلد مغربی معاشرہ میں مقبول دیکھنا چاہتا تھا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے رشدی نے اسلامی تقدسات کو نشانہ بنانا ضروری سمجھا۔ رشدی کی یہی فکر اس کو عزت و عظمت کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دنیا کے تمام حق پسندوں کی نظر میں اس کو مبغوض بنا دیتی ہے۔ ’’شیطانی آیات‘‘ جیسی تحریروں کو ہرگز ایک مثبت ادب کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اس کے عمل کا دفاع آزادیٔ رائے کے نظریہ سے کیا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر یہ آزادیٔ رائے کا بیجا اور غیر اخلاقی استعمال ہے۔ جہاں تک رشدی پر حملہ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے ردعمل سے کوئی فائدہ پہنچنے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہوتا ہے اور اسلام دشمن عناصر کو یہ پروپیگنڈہ پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے کہ اسلام کے ماننے والے کسی قسم کی تنقید کو گوارہ نہیں کرتے اور پر تشدد ردعمل پر اتر آتے ہیں اور اس طرح اسلام کے بارے میں صرف منفی آراء ہی میڈیا میں جنم لیتی ہیں۔ جو لوگ رشدی جیسے منفی مزاج مصنّفین کی تحریروں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں، ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ قانون کے سہارے ان کا مقابلہ کریں اور معیاری تحریروں کے ذریعہ ان کے نقائص کو واضح کریں، البتہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں تاکہ علمی دلائل سے رشدی جیسے مصنّفین کی خود غرضی اور ان کے فکری دیوالیہ پن کو بے نقاب کیا جاسکے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو فائدہ صرف رشدی بریگیڈ کو ہی ملے گا جو بالکل بھی مناسب نہیں ہوگا۔ رشدی کی تازہ ترین کتاب سے یہی واضح ہوتا ہے۔ لہٰذا مستقبل میں کسی بھی رد عمل کو مثبت رخ دینے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS