حجاب سمیت روایتی لباس پہننے پر پابندی

    0

    بیجنگ (ایجنسیاں)
    چین شن جیانگ میں اویغور مسلمانوں پر قہر بن کر ٹوٹنے کے بعد ڈریگن نے اتسل مسلمانوں کو نشانہ پر لے لیا ہے۔ محض 10 ہزار کی آبادی والے اتسل مسلمانوں کو چین میں کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اتسل خواتین کو حجاب سمیت کئی طرح کے روایتی لباس پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ اطلاع سامنے آنے کے بعد چین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کے ممالک کے نشانہ پر ہے۔ ہنان علاقے کے ثانیہ شہر میں رہنے والے اتسل مسلمانوں کو اسکول اور سرکاری دفاتر میں روایتی لباس پہننے کی وجہ سے نشانہ بنایاگیا۔ افسران نے ان کے اس طرح کے لباس پہننے پر روک لگادی۔ ساؤتھ چائنا مائنگ پوسٹ کے مطابق اتسل کمیونٹی کے ایک ورکر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری احکام یہ ہے کہ کوئی بھی اقلیت اسکول میں روایتی کپڑوں کو نہیں پہن سکتا ہے۔ ثانیہ میں دیگر اقلیت روایتی لباس نہیں پہنتے ہیں۔ اس طرح یہ حکم ان پر کوئی اثر نہیں کرتا، جبکہ ہم پر کرتا ہے۔ حجاب ہماری تہذیب کا اہم حصہ ہے اور اگر ہم اسے اتاردیں گے تو یہ ہمارے کپڑے اتارنے جیسا ہوگا۔ حجاب پر پابندی لگانے والے حکم کے خلاف لڑکیوں کی مخالفت بھی شروع ہوگئی ہے۔ اِس حکم کے خلاف لوگ مظاہرہ کررہے ہیں۔ تیانیہ اتسل پرائمری اسکول کے باہر حجاب پہنے ہوئے لڑکیوں کے ایک گروپ کو کتاب پڑھتے دیکھا گیا۔ مظاہرہ کرتی ہوئی ان لڑکیوں کو پولیس نے گھیر رکھا تھا۔ حجاب کے علاوہ اتسل خواتین کے ذریعہ پہنی جانے والی لمبی اسکرٹ پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔وہیں اتسل مسلمانوں کے روایتی لباس پر لگائی گئی پابندیوں کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ کمیونٹی کارکنان نے کہا کہ ثانیہ میونسپل کارپوریشن یا شہر کی مقامی چینی کمیونسٹ پارٹی کی برانچ میں کام کرنے والی اتسل خواتین کو بھی گزشتہ سال کے آخر میں حجاب پہننے پر پابندی لگادی گئی تھی۔یونائٹیڈ نیشن کی رپورٹ کے مطابق چین اپنے ملک میں ایک کروڑ اویغور اور دیگر مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے۔ چین نے شن زیانگ میں اویغور مسلمانوں کو ڈٹینشن کیمپ میں ڈال رکھا ہے۔ دنیا بھر میں مخالفت کے باوجود چینی سرکار اس فیصلے کو صحیح ٹھہراتے ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے اویغور مسلمانوں کا ہاتھ بتا رہی ہے۔
     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS