انجینئر خالد رشید علیگ
ایران اور امریکہ، اسرائیل کے درمیان جنگ میں اچانک ایک ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب امریکی صدر اور اس جنگ میں اسرائیل کے معاون ڈونالڈ ٹرمپ نے دنیا کو اطلا ع دی کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی کے لیے راضی ہو گئے ہیں اور لوکل وقت کے مطابق صبح چار بجے سے جنگ بند ہو جائے گی اور جنگ بند بھی ہوگئی، دنیا پر واضح ہوگیا کہ جنگیں کس کے اشارے پر شروع ہوتی ہیں اورکس کے اشارے پر رکتی ہیں، لیکن یہ سوال بھی پوچھے جانے لگے کہ کیا اس جنگ بندی کی وجہ چاچا ٹرمپ کے حکم کی تعمیل تھی؟ ایران کے میزائلوں سے پریشان اسرائیل کی خواہش تھی؟ ڈونالڈ ٹرمپ کا نوبل پرائز حاصل کرنے کا خواب تھا یا اسرائیلی حملوں سے تھک چکے ایران کی مجبوری؟ جو لوگ اسرائیل کے ہمنوا ہیں، ان کے مطابق اسرائیل اور امریکہ نے اپنے اہداف حاصل کر لیے تھے اور اب جنگ کا جاری رہنا ان کے لیے غیر ضروری تھا۔آئیے مختصراً یہ جاننے کی کوشش کریں کہ امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کیا تھے اور وہ کس حد تک حاصل ہوئے۔
اسرائیل کا پہلا ہدف ایران میں آیت اللہ خامنہ ای کے اقتدار کو تبدیل کرنا تھا جس کا ذکر نیتن یاہو کئی بار کر چکے ہیں لیکن اقتدار کی تبدیلی تو دور کی بات جس طرح ایران کی مسلح افواج نے ایرانی قیادت کی رہنمائی میں اسرائیل کو ناکو چنے چبوا دیے اور ان اسرائیلی شہروں کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا جو دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں شمار ہوا کرتے تھے، اس نے نہ صرف اس قیادت کو مضبوط کیا بلکہ مزید طاقت عطا کر دی۔ جنگ بندی کے بعد پوری ایرانی قوم نہ صرف جیت کا جشن منا رہی ہے بلکہ آیت اللہ خامنہ ای کے پیچھے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے، نتیجتاً اب اسرائیل اور امریکہ بھی یہ خیال ترک کر چکے ہیں کہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی اس مسئلے کا حل ہے، ویسے بھی امریکہ لیبیا اور عراق میں اقتدار کی تبدیلی کے نتائج سے بخوبی واقف ہے۔
اسرائیل کا دوسرا خواب تھا ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور سے تباہ کرنا،یہ کام اسرائیل کے لیے نا ممکن تھا، اسی لیے وہ امریکہ کو جنگ میں کھینچنا چاہتا تھا، ابتدا میں ٹرمپ کا رویہ ڈھلمل سا لگا اور نیتن یاہو کو جنگ کے دوران ہی امریکہ جانا پڑا، وہاں کس طرح اور کن شرطوں پر انہوں نے ٹرمپ کو منایا یہ بات تو صرف ٹرمپ اور نیتن یاہو ہی جانتے ہوں گے لیکن ٹرمپ تیار ہوگئے اور ایران کے ایٹمی ٹھکانوں پر امریکہ نے B2طیاروں کی مدد سے حملہ کردیا، اس حملے نے کئی سوال پیدے کر دیے، اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مانیں تو ایران کی ایٹمی تنصیبات پوری طرح تباہ ہوگئیں لیکن ابھی اخباروں کی سیاحی خشک بھی نہ ہوپائی تھی کہ یہ خبریں گشت کرنے لگیں کہ ایرانی تنصیبات کو بہت معمولی سا نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ وہ دو تین ماہ میں کر سکتا ہے۔ اگر یہ خبر میڈیا کی پیدا کردہ ہوتی تو اس پریقین مشکل تھا مگر یہ خبر امریکہ کی خفیہ ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں دی ہے نیز یہ کہ جو لوگ ایٹمی ہتھیاروں کے ایکسپرٹ ہیں ان کی سمجھ میں بھی اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے کہ پوری طرح تباہ ہو چکی ہیں ایران کی ایٹمی تنصیبات، ان کا خیال ہے کہ اگر زیر زمین یورینیم پر حملہ ہوا تو فضا میں ایٹمک آلودگی کا پھیلنا لازمی تھا، اگر آلودگی نہیں پھیلی ہے تواس کے دو مطلب نکالے جا رہے ہیں پہلا یہ کہ تنصیبات خاص کر فودو کو معمولی نقصان ہوا اور امریکی بم یورینیم تک نہیں پہنچ سکے یا ایران نے حملے سے پہلے ہی یورینیم کو کسی محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا تھا، وجہ جو بھی رہی ہو اس حملے کی کامیابی پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں جن کے جوابات شاید کبھی نہ مل سکیں۔
اسرائیل کا تیسرا ہدف ایران کی فوجی طاقت کو ختم کرنا تھا۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ ایک دو روز کی بم باری ایران کو اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی، ایران گڑگڑا کر جنگ بندی کی درخواست کرنے لگے گا لیکن ہوا اس کے بر عکس، اسرائیل کو خود امریکہ کے سامنے گڑگڑا نا پڑا۔ اس کے علاوہ ایران نے جنگ کے آخری مراحل تک بلکہ جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل پر طاقتور میزائل داغ کر یہ ثابت کر دیا کہ بارہ دن کی شدید جنگ کے باوجود اس کی فوجی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل کا ایک بھی مقصد پورا نہیں ہو سکا، نہ ایران میں حکومت تبدیل ہوئی نہ ہی اس کے ایٹمی پروگرام کو ختم کیا جا سکا اور نہ ایران سے ہتھیار ڈلوائے جا سکے تو پھر اسرائیل جنگ بندی کے لیے کیوں تیار ہوگیا؟ یہ سمجھ پانا مشکل امر ہے۔ ایرانی گروپ کا خیال ہے کہ ایران جنگ میں سبقت حاصل کرچکا تھا، اسرائیل کا ایئر ڈیفنس دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا تھا، روس اور چین پوری طرح ایران کے ساتھ کھڑے ہو چکے تھے، کم و بیش سارے مسلم ممالک ایران کی آواز بول رہے تھے،اگر یہ جنگ چند روز اور جاری رہتی تو اسرائیل کا نا قابلِ شکست ہونے کا بھرم چکنا چور ہو جاتا۔ اگر یہ سچ ہے تو ایران نے جنگ بندی کیوں قبول کی، اس سوال کا جواب بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا یہ کہ آپریشن سندور میں پاکستان کو دھول چٹانے والے ہندوستان کو جنگ بندی قبول کرنے کی کیا مجبوری تھی؟ فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ دنیا میں ایک ہی طاقت ہے جس کے اشارے پر جنگ شروع ہوتی ہے اور اسی کے اشارے پر ختم ہوجاتی ہے۔ بہرحال اب جنگ بند ہوچکی ہے اور مستقبل قریب میں یہ گتھی بھی سلجھ ہی جائے گی کہ اس کی اصل وجہ کیا تھی، فی الحال اس جنگ سے جو پیغام دنیا کو ملا ہے، وہ یہ ہے کہ باوجود طویل اقتصادی پابندیوں کے ایران نے محدود وسائل سے جس طرح اپنے فوجی بنیادی ڈھانچے کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ اسرائیل کا مقابلہ کر سکا، جس اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی، یہ کارنامہ کسی معجزہ سے یقینا کم نہیں ہے۔ دوسرے یہ حقیقت بھی دنیا پر عیاں ہوگئی کہ اب عالمی نظام بہت جلد کروٹ لینے جا رہا ہے جس میں امریکہ کی غنڈہ گردی پہلے کی طرح لا محدود نہیں ہوگی۔ اس جنگ کا ایک اور مثبت پہلو یہ رہا کہ عالمِ اسلام متحد نظر آیا اور عرب ممالک کو اندازہ ہوگیا کہ زیادہ دن تک وہ عوامی جذبات کے خلاف اندھا دھند امریکہ کے حق میں فیصلے نہیں لے پائیں گے۔
اسرائیل اور امریکہ کے اندر بھی جس طرح سرکاروں کے خلاف آوازیں اٹھیں، جگہ جگہ عوامی مظاہرے ہوے، ناٹو میں اختلافات رونما ہوئے، وہ بھی ایک خوشگوار تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اس کی وجہ ایران کی جنگ کے ساتھ وہ ظلم و ستم بھی تھا جو اسرائیل گزشتہ دو سالوں سے غزہ میں کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران-اسرائیل جنگ تو صرف بارہ دن چلی لیکن اسرائیل کے خلاف ماحول بہت پہلے سے بن چکا تھا جس کے لیے اسرائیل خود ذمہ دار ہے۔ ٹرمپ صاحب نے حالیہ ناٹو اجلاس میں اشارہ دیا ہے کہ بہت جلد غزہ میں بھی جنگ بندی ہوسکتی ہے، ’دیر آید درست آید‘ کے مصداق ٹرمپ صاحب کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ جنگیں صرف جدید اسلحہ سے نہیں جیتی جا سکتیں بالآخر فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اسرائیل،امریکہ اور ایران کے درمیان جو مذاکرات ہوں گے، ان میں فلسطین کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش بھی کی جائے گی جو ان تمام تنازعات کی اصل وجہ ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہی ہوگا کہ آگ بجھانے کے لیے اس کی لپٹوں پر پانی ڈالنا کافی نہیں جب تک اس کی جڑ پر پانی نہ ڈالا جائے آگ بجھانے کی کوششیں ناکام رہتی ہیں۔