شاہد زبیری
سنگھ پریوار نے آزادی سے پہلے اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف جو نفرت کا بیج بویا تھا اور آزادی کے بعد جس طرح سنگھ اور بی جے پی نے اس کی آبیاری کی وہ بیج اب نفرت اورفرقہ پرستی کا تناور درخت بن گیا ہے اور خوب برگ و بار لارہا ہے اور اس کی نفرت اور فرقہ پرستی کی جڑیں ہندوستانی سماج میں پھیل چکی ہیں اور سماج کو اپنی زہر سے آلودکررہی ہیں ۔اس زہر کی علامات سڑک سے سنسد تک ہر جگہ ظاہر ہورہی ہیں۔ابھی ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر کی بابت حال ہی میں پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران راجیہ سبھا میں ہمارے وزیر داخلہ امت شاہ نے جو توہین آمیز لہجہ اختیار کیا اس پر نہ صرف کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے گرفت کی ہے بلکہ دلت فرقہ میں بھی اس سے شدید اشتعال پھیلا ہوا ہے۔ دلت تنظیموں کے علاوہ بی جے پی کی بی ٹیم کہی جانے والی بی ایس پی جو کبھی سڑکوں پر نہیں اترتی اس کو بھی سڑکوں پر اترنا پڑا ہر چند کہ بی ایس پی نے امت شاہ کے خلاف وہ تیور نہیں دکھائے جو دیگر اپوزیشن جماعتوں نے دکھا ئے اپوزیشن جماعتیں امت شاہ کی معافی کے ساتھ ہی ان کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کررہی ہیں جبکہ بی ایس پی نے صرف معافی کا مطالبہ کیا ہے ۔اس معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اسی بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ جو امت شاہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں، جنہوں نے وزیر اعظم کی طرح کبھی پریس کانفرنس نہیں بلائی ان امت شاہ کو پریس کانفرنس بلانی پڑی اور آدھی ادھوری صفائی دینے پر مجبور ہونا پڑا، لیکن امت شاہ نے استعفیٰ تو دور کی بات اس پر معافی اور معذرت کی بھی ضرورت نہیں سمجھی ۔
ابھی یہ بھونچال تھما بھی نہیں ہے کہ 25دسمبر کوپٹنہ کے گاندھی بھون میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کے یومِ پیدائش کی تقریب کے موقع پر گاندھی جی کے مشہور بھجن ’رگھو پتی راگھو راجہ رام ایشور اللہ تیرو نام‘ کولے کر بی جے پی کی مسلم دشمنی کے ساتھ ہی گاندھی دشمنی کا بھی لوگوں نے نظارہ دیکھا جب بھجن گانے والی بھوجپوری مغیّنہ دیوی جن کو ممبئی سے بلایا گیاتھا انہوں نے گاندھی بھون میں باپو کا مشہورو معروف بھجن’رگھو پتی راگھو راجہ رام ایشور اللہ تیرو نام گایا‘ جب انہوں نے بھجن کی دوسری سطر ’ ایشور اللہ تیرو نام‘گایا تو ہال میں بیٹھے بی جے پی لیڈران اور کارکنان مشتعل ہو گئے اور اس کے جواب میں انہوںنے ’جے شری رام‘کے نعرے لگائے ۔ اتنا ہی نہیں اسٹیج پر موجود ایک بی جے پی کے لیڈر نے بھی بھجن گانے والی دیوی سے مائک چھین کر’جے شری رام ‘کے نعرے لگا نے شروع کردئے اور تواور بی جے پی کے سابق مرکزی اور سابق صوبائی وزیر اور سنگھ کی پاٹھ شالہ کے تربیت یافتہ بی جے پی کے بزرگ لیڈر اشونی چوبے خود اسٹیج پر آئے اور انہوں نے بھجن گانے والی مغیّنہ دیوی سے کہا کہ وہ اس کیلئے معافی مانگیں۔ دیوی نے مائک سے کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں لیکن اگر ایسا ہے تو وہ اس کیلئے معافی مانگتی ہیں اشونی چوبے نے ان کو مائک سے ہٹاکر خود مائک سے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا نے شروع کردئے اور پارٹی کے مشتعل لوگوں کے غصّہ کو سرد کیا اور بھجن گانے والی دیوی وہاں سے واپس ممبئی لوٹ آئیں۔ اگر اس شرمناک واقعہ کی ویڈیو وائرل نہ ہو تی تو شاید کسی کو اس کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ چلتا ۔
بھجن گانے والی دیوی نام کی بھوجپوری مغیّنہ نے نہ صرف اس پورے واقعہ کی تصدیق کی ہے بلکہ انہوں نے انڈیا ٹو ڈے کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے یہ بھی بتا یا کہ ہال میں موجود لوگوں کو سب سے زیادہ اعتراض جس پر تھا وہ توایشور کے ساتھ ’اللہ‘ کے لفظ پر تھا ۔ اس سے بی جے پی کی تنگ نظری اور زہر آلود سوچ اور فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ دھیان رہے کہ گاندھی جی اپنی دعائیہ مجلس( پرارتھنا سبھا ) میں ہر روز یہ بھجن گاتے تھے ۔ جنگِ آزادی کے دورران 12مارچ 1930کو ڈانڈی مارچ میںپہلی مرتبہ گاندھی جی نے یہ بھجن گا یا تھا جس میں’ ایشور اللہ تیرو نام سب کو سمّتی دے بھگوان’کی سطر بھی شامل تھی ۔ بھجن کا مقصد صاف تھا کہ گاندھی جی جنگِ آزادی میں سب کو متحد رکھنے کی کوشش کررہے تھے اسی لئے وہ تاحیات اس بھجن کوگاتے رہے وہ اپنی دعائیہ مجلس کا آغاز ہی اس بھجن سے کرتے تھے۔ گاندھی جی ہندوستان میں رام راج کی بات بھی کرتے تھے لیکن وہ یہ صاف کہتے تھے کہ ’میرا رام راج ‘ ہندو راشٹر‘ نہیں’رام راج‘سے مراد گاندھی جی سماجی انصاف ،عدم مساوات ،امن و آشتی کا راج لیتے تھے۔ انہوں نے رام راج ہی کی بات نہیں کی انہوں نے اسلام کے دوسرے بڑے خلیفہ حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت کی بھی تعریف کی ہے انہوں نے تحریکِ خلافت کی رہنمائی بھی کی وہ جانتے تھے کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر انگریزوں سے آزادی حاصل نہیںکی جا سکتی۔ وہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتے تھے اور خود کو سناتنی ہندو بھی کہنے سے نہیں شرما تے تھے باوجود اس کے ان کے ساتھ تمام مذاہب کے لوگ یہ بھجن گاتے تھے ۔
یہ سب جانتے ہیں کہ گاندھی جی کے یومِ پیدائش اور یومِ وفات پر یہ پورا بھجن بغیر کسی تراش خراش کے پورے ملک میں اسی طرح گایا جارہا ہے جیسا 1930 میں شروع کیا گیا تھا۔آخر آج بی جے پی اس پر کیوں چراغ پا ہے اور کیوں اس کے پروگرام میں اس بھجن کے خلا ف نعرے بازی کی گئی اور بھجن گانے نہیں دیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی نے صرف گاندھی کے بھجن کی تحقیر کی ہے بلکہ ہمارے قومی اتحاد پر بھی ضرب لگا ئی ہے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی کو ہر اس بات سے نفرت ہے جس کا تعلق ہندو مسلم اتحاد سے ہے ۔ اسی لئے بی جے پی کو ایشور اور اللہ کا ذکرایک ساتھ پسند نہیں آیا۔ گاندھی بھون میں جو کچھ ہوا اور جس طرزِ عمل کا مظاہرہ بی جے پی نے کیا اس سے صاف ہے کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی آج بھی گاندھی جی کا دل سے احترام نہیں کرتے اگر وہ ایسا کرتے تو گاندھی جی کے بھجن کی گاندھی بھون میں اس طرح تحقیر نہ کی جاتی۔ ہر چند کہ بی جے پی کی حلیف اور مرکز و بہار میں اقتدار میں بی جے پی کی شریک جے ڈی یو کے لیڈر نیرج کمار نے بی جے پی کے گاندھی جی کے بھجن کی تحقیر کے شرمناک طرزِ عمل پر تنقید کی ہے اور آر جے ڈی کے لیڈر لالو پرساد نے بھی اپنے خاص انداز میں اس پر اپنا ردِّ عمل ظاہر کیاہے لیکن خود کو گاندھی وادی کہنے والے نتیش کمار اور سیکولرزم کے دعویدار چندرا بابو نائیڈو کسی نے ردِّ عمل کا اظہار نہیں کیا ۔سماجوادی پارٹی سمیت دوسری غیر بی جے پی پارٹیوں کی طرف سے وہ ردِّ عمل سامنے نہیں آیا جو آنا چاہئے تھا حالانکہ ان پارٹیوں نے بھیم رائو امبیڈ کر کی توہین کے معاملہ میں بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لے رکھا ہے لیکن بھجن پر چپّی سادھ رکھی ہے ۔ کیا ان جماعتوں کو ڈر ہے کہ اگر انہوں نے’ ایشور اللہ ‘ پر اپنی زبان کھولی تو مسلم چاپلوسی کا الزام لگ جائے گا حالانکہ یہ سیدھا سیدھا گاندھی جی کے نظریات پر حملہ ہے۔ کانگریس نے شاید اسی تناظر میں پٹنہ کے پارٹی کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں ‘جے باپو، جے بھیم اور جے سنودھان ‘ کے نعرے کو منظوری دی ہے ۔
امبیڈ کر اور باپو ہی کیا بی جے پی کی منڈلی کو سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے احترام کی بھی پروا نہیں۔ ان کے انتقال پر سرکاری اعزاز دینا تو مودی سرکار کی مجبوری تھی لیکن آخری رسومات راج گھاٹ پر ادا کر نے کی بجا ئے نگم کے گھاٹ پر ادا کرائی گئیں جس پر کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے ناراضگی دکھائی اور احتجاج کیا ہے اور ا س کو سکھ اقلیت کے پہلے وزیر اعظم کی توہین قرار دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ منموہن سنگھ عوامی سطح کے ماہرِ معاشیات تھے انہوںنے نرسمہا رائو سرکار کے زمانہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے ملک کو دیوالیہ ہو نے سے بچا یا تھا اور بحیثیت وزیرِ اعظم بھی انہوں نے ملک کو معاشی طور مضبوط اور مستحکم کر نے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس کا سہرہ مودی جی آج اپنے سر باندھ ر ہے ہیںاور اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کر رہے ہیںجس کیلئے تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔