مابعد 5 اگست 2019: کشمیر کتنا ’نیا‘ کتنا ’پرانا‘؟

0

صریر خالد

جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضامن آئین ہند کی دفعہ 370 کی تنسیخ کے ’جواز‘ کے بطور بی جے پی نے ’نیا کشمیر‘ کا نعرہ دیا تھا۔ تب سے یہ پارٹی اور اس کی سرکار اس نعرے کو نہ صرف دہراتی آرہی ہیں بلکہ دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ نیا کشمیر بن بھی چکا ہے مگر کیا واقعی ’نیا کشمیر‘ بن چکا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب مثبت بھی ہے اور منفی بھی! مرکزی سرکار جموں وکشمیر میں ’پبلک آؤٹ ریچ‘ کے ایک پروگرام کے تحت اپنے وزرا اور ان کے نائبین سے یہاں کا دورہ کراتی آرہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت متعدد وزارتوں کا دورہ مکمل ہوچکا ہے اور ابھی گزشتہ ہفتے خود وزیر داخلہ امت شاہ بھی یہاں کا دورہ کرکے گئے ہیں۔ وہ تین دن تک یہاں رہے اور اس دوران انہوں نے سیکورٹی کے حوالے سے اہم میٹنگیں لے کر متعلقین کو تازہ ہدایات جاری کردیں جن کے نتیجے میں وادی کے اطراف و اکناف میں فورسز کی موجودگی مزید نمایاں ہوگئی ہے۔ 5 اگست 2019 کو اسے ’خصوصی حیثیت والی ریاست‘ کے درجے سے گراکر دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیے جانے کے مہم جوئیانہ فیصلے کے بعد سے مسٹر شاہ کا یہ پہلا دورۂ جموں و کشمیر تھا۔ یہ دورہ ان حالات میں ہورہا تھا کہ جب وادیٔ کشمیر میں نامعلوم بندوق برداروں نے اقلیتی فرقے کے کئی مقامی و غیر مقامی افراد سمیت درجن بھر شہریوں کو ہلاک کر کے ایک ہی جست میں نارملسی کے غبارے کو پھوڑ دیا ہے۔ جموں و کشمیر جون 2018 سے براہ راست مرکزی حکومت کے تحت ہے اور سابقہ ریاست کی تنظیم نو میں سیاسی اور پارلیمانی کھروچوں کے درد سے اب بھی ٹیس اٹھی ہوئی ہے۔ یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے جو ترقیاتی منصوبے جموں و کشمیر میں ابھی چل رہے ہیں بلکہ جن کی بہت زیادہ منادی ہو رہی ہے، وہ واقعی ’نئے کشمیر‘ کی سوغات ہے یا ’پرانے کشمیر‘ کا ورثہ ! لیکن دیگر مرکزی وزرا سے لے کر وزیر داخلہ تک مرکز کے سبھی نمائندگان نے اپنے دوروں کے دوران جموں و کشمیر کی تنظیم نو کے بعد سے سابق ریاست کے طے کردہ ترقیاتی سنگ ہائے میل کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بھلے ہی ننگی آنکھ کو ابھی تک ترقی کا یہ سفر دکھائی بھی نہ دیتا ہو لیکن وزیر داخلہ کا دعویٰ ہے کہ اگست 2019 کے مابعد جموں و کشمیر میں ترقی کا تیز رفتار سفر جاری ہے اور سال 2024 کے اخیر تک یہاں کے عوام کو وہ سب کچھ ملے گا کہ جس کے وہ ’مستحق‘ ہیں۔ کیا جموں و کشمیر کے عوام کو وہ پابندیاں بھی بطور حق ہی نصیب ہوتی ہیں جنہوں نے مسٹر شاہ کے سہ روزہ دورے کے دوران زندگی مشکل بنا دی تھی، پوچھنے والی بات ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے وادیٔ کشمیر میں سیکڑوں گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں جبکہ دو پہیے والی گاڑیوں پر اس حد تک غیر علانیہ پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ کانگریس کے مرکزی لیڈر غلام نبی آزاد نے اس پر بیان بلکہ بیانات دیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جبکہ ایندھن کی آسمان چھوتی قیمتوں کی وجہ سے لوگ گاڑیوں سے زیادہ اسکوٹی اور بائیک وغیرہ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں، وادیٔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر دو پہیے والی ان سواریوں کی ضبطی افسوسناک ہے۔ واضح رہے کہ وزیر داخلہ کے دورے سے قبل اور اس کے دوران وادیٔ کشمیر میں ہزاروں بائیک اور اسکوٹر ضبط کیے گئے۔ چنندہ علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کا انقطاع الگ۔ حالانکہ جموں و کشمیر پولیس نے یہ وضاحت کرنا لازمی سمجھا کہ ان پابندیوں کا وزیر داخلہ کے دورے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، تاہم خود وزیر داخلہ نے وقت وقت پر عائد کی جانے والی ان پابندیوں کو ان کڑوی گولیوں سے تشبیہ دی جو بقول ان کے جان بچانے میں مددگار رہی ہیں۔ ایک تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ان سے یہ سوال کئی بار پوچھا جاتا رہا ہے کہ اگست 2019 کے فیصلے کے وقت جموں و کشمیر میں کرفیو اور انٹرنیٹ وغیرہ پر پابندیاں کیوں نافذ کی گئی تھیں اور وہ ان سوالوں کا اب یہ جواب دینا چاہتے ہیں کہ ایسا کرنا کشمیریوں کو سڑکوں پر آکر گولیاں کھانے سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔ بھلے ہی انہوں نے یہ کہا کہ بعض عناصر لوگوں کو گمراہ کر کے سڑکوں پر لاسکتے تھے، تاہم ان کے ’جواب‘ میں کہیں نہ کہیں یہ اعتراف بھی پوشیدہ ہے کہ غیر معمولی پابندیاں عائد نہ رہتیں تو لوگ آسانی سے ’گمراہ‘ ہو سکتے تھے اور یہ بھی کہ سرکاری فورسز ان پر گولیاں چلانے سے بھی نہیں کتراتیں۔ دفعہ 370 کی تنسیخ اور اس کے بعد سے کیے گئے متعدد متنازع اقدامات بہرحال ایک حقیقت ہیں بلکہ یہ ساری چیزیں، اگرچہ کئی لوگوں کے لیے اب بھی نا قابل یقین ہیں، ایک ایسی تاریخ ہیں جسے بدلنے اور قائم رکھنے کے وعدوں پر نہ جانے کتنی سرکاریں بنتی اور بگڑتی رہیں گی۔ اس تاریخ کو بنانے کی حد تک بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور کو بھی پورا کیا اور اپنے خواب شرمندہ تعبیر بھی کیے، البتہ اس ’تاریخی مہم جوئی‘سے آگے کی پالیسی کیا ہے اور کشمیر کو حقیقی معنوں میں امن کا تحفہ کیسے دیا جا سکتا ہے، اس بارے میں کچھ واضح نہیں ہے۔
پبلک آؤٹ ریچ پروگرام کے تحت جموں وکشمیر کا دورہ کر گئے وزراہوں یا وزیر اعظم مودی کے بعد بھاجپا یا سرکار میں سب سے بڑے کرتا دھرتا امت شاہ، ان کی ساری توجہ اور زور بی جے پی کے کشمیر بیانیہ پر رہا۔ جموں و کشمیر میں محض 6-7سال قبل بی جے پی کا داخلہ مرحوم مفتی سعید کی پی ڈی پی کی بدولت ہوا تھا، تاہم آج یہ پارٹی (نیشنل کانفرنس کی ’ملکیت‘ رکھنے والے) شیوخ و مفتیان کشمیر (پی ڈی پی کے ’مالکان‘)کو بے اختیار کرنے کو تنسیخ دفعہ 370 کی دفاع کے بطور پیش کرتی ہے۔ وزیر داخلہ نے حالیہ دورے کے دوران دہرایا کہ کشمیریوں کو ’تین خاندانوں کی داداگیری‘ سے نجات دلائی گئی ہے جنہوں نے،بقول شاہ کے، کشمیریوں کو دہائیوں سے یرغمال بنائے رکھا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر میں رشوت ستانی کا دور دورہ تھا اور یہاں کی ترقی نہیں ہوپارہی تھی جبکہ ان کے دعویٰ کے مطابق، تنسیخ دفعہ 370 کے بعد ہی یہاں کی ترقی ممکن ہو پائی ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جموں و کشمیر کے حکمرانوں کو ایک ’سیاسی رعایت‘ کے بطور رشوت خوری کا ’لائسنس‘ حاصل رہتا آیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہو سکتا ہے کہ سابق ریاست میں شرح افلاس ملکی اوسط 21.92 فیصد کے بمقابل محض 10.35 فیصد ہی رہی ہے اور یہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے۔ جیسا کہ بھاجپا کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں اب سرکاری فورسز پر سنگبازی نہیں ہوتی ہے، یہ سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بی جے پی نے یہاں سے اٹھنے والی آوازوں کو گویا کہیں ہوا میں تحلیل کر دیا ہے ،یہاں زیر حراست اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے واقعات تک پر کوئی اف تک نہیں کرتا ہے۔ اس وقت جب کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی طوطی بولتی تھی، اپنی اعتباریت کا ثبوت دے کر تن تنہا مین اسٹریم کو ریلیونٹ بنائے رکھنے والے معروف ممبر اسمبلی انجینئر رشید کو تہاڑ جیل میں ڈال کر ’آئین کے دائرے کے اندر‘ رہتے ہوئے بھی تنقید کی ’جرأت‘ کرنے کی کسی میں ہمت باقی نہیں چھوڑی گئی۔ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور اس طرح کی دیگر بھارت نواز پارٹیوں کی تذلیل سے انہیں اپنے ووٹروں کو منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑنے اور ان کی جگہ نئے ’لیڈروں‘ کی نشو و نما کا نظارہ بھی جاری ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی نے دہائیوں تک علیحدگی پسندی کے روح رواں رہے بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی، جن کی ایک جھلک پانے کے لیے کشمیر کی گلیوں نے لاکھوں کے مجمعے امڈتے دیکھے ہیں، کے جنازے میں محض درجن بھر لوگوں سے زیادہ کی شرکت کو نا ممکن بنانے کی حد تک ’نیا کشمیر‘ ضرور بنایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ کشمیر میں اب کوئی سیاسی سوال باقی ہی نہیں رہا ہے، بہر حال عاقبت نااندیشی ہی کہلائے گا۔ مایوس کن ہے کہ نئی دلی کے صاحبان اقتدار سب کچھ جانتے ہوئے بھی وادیٔ کشمیر کی موجودہ خاموشی کو سچ میں ’نارملسی اور دائمی امن‘ سمجھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سوچ کی جانب اشارہ مسٹر شاہ کے حالیہ دورۂ کشمیر کے دوران کسی سیاسی بات نہ کرنے بلکہ کشمیر کے خارجی پہلو کو سرے سے رد کرنے سے ہوتا ہے۔ شاہ نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ اگر کشمیر پر بات کریں گے بھی تو ’کسی اور سے نہیں‘ بلکہ کشمیری نوجوانوں سے کریں گے۔ سابق ریاست کے درجے کی بحالی کو تین قدم دور منزل قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلے (اسمبلی حلقہ جات کی) حد بندی، پھر اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد اور پھر ریاستی درجے کی بحالی ہوگی۔ دیکھا جائے تو یہ کسی فریب سے کم نہیں ہے، کیونکہ ایک تو مرکزی سرکار نے پہلے ہی جموں و کشمیر کا ایک حصہ (لداخ) الگ کرکے اسے علیحدہ یونین ٹریٹری قرار دیا ہے اور دوسری جانب گزشتہ دو سال جموں و کشمیر کے نیم خود مختار ریاست ہونے کے آثار مٹانے میں گزرے ہیں۔ ’غلطیاں مٹانے‘کا یہ سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب ریاستی درجے کی بحالی کے امکان کو رد کرنے کی بجائے اس حوالے سے کل پرسوں کی باتیں کی جا رہی ہیں جس سے صاحبان اختیار کے ابہام کا شکار ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS