نئی دہلی : کانگریس نے آج الزام عائد کیا کہ حکومت ملک کے کچھ ہوائی اڈوں کو اپنے صنعت کار دوستوں کے حوالہ کرنے کے بعد اب عقبی دروازے سے ملک کی اہم بندرگاہوں بھی کو نجی ہاتھوں میں دینا چاہتی ہے۔
کانگریس کے شکتی سنگھ گوول نے بدھ کے روز راجیہ سبھا میں’میجر پورٹس اتھارٹی بل 2020‘پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کا مسودہ تیار کرتے ہوئے بہت سے امور کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ، جس سے اس میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا اور کمیٹی نے اپنی رپورٹ بھی دے دی تھی لیکن لوک سبھا تحلیل ہونے کی وجہ سے اس بل کو واپس لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات کو دوبارہ پیش کردہ بل میں شامل نہیں کیا گیا ۔ لہذا اس بل کو دوبارہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے اور بندرگاہوں کی نجکاری سے متعلق تمام خدشات دور کئے جائیں۔
گوول نے الزام لگایا کہ بل کا مسودہ تیار کرتے وقت جان بوجھ کر ایسے التزاما ت کئے گئے ہیں تاکہ حکومت بندرگاہوں کو اپنے دوست صنعتکاروں کے حوالے کردے۔ انہوں نے کہا کہ بندرگاہوں کی نجکاری کا اندیشہ ان باتوں سے پیدا ہوتا ہے آپریٹنگ بل میں جس بورڈ کی تشکیل کی بات کی گئی ہے اس میں 13میں سے7ممبران پرائیوٹ ہوں گے۔ ممبروں کی اہلیت اور مہارت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ اس بورڈ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب کرنے کے لئے کمیٹی کی تشکیل کرنے والی کمیٹی کے بارے میں پوزیشن واضح نہیں کیا گیا ہے۔ بورڈ میں کارکنوں کی نمائندگی بھی بہت کم ہے۔ پورٹ سے متعلق استعمال اور غیر بندرگاہ سے متعلق استعمال کی بھی واضح طور پر تعریف نہیں کی گئی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سریش پربھو نے کہا کہ یہ بل ملک کی 7600 کلومیٹر طویل ساحلی سرحد کے پیش نظر ضروری ہے اور اس کے قانون بن جانے سے ملک کی معیشت میں تیزی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد صرف بندرگاہوں کو ترقی دینا نہیں ہے بلکہ ملک میں بندرگاہ پر مبنی ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس بل میں پورٹ مینجمنٹ کو خودمختاری دینے کا انتظام کیا گیا ہے ، جو اس کے کام کو پیشہ ور بنائے گا اور اس میں شفافیت لائے گا۔
اس سے قبل مرکزی وزیر مملکت برائے بحری ٹرانسپورٹ منسکھ مانڈویہ نے کہا تھا کہ اس بل میں ملک میں بڑی بندرگاہوں کے ضابطے،آپریٹنگ ،منصوبہ بندی اور ان کی انتظامیہ،کنٹرول اور انتظامیہ کو چیف پورٹ انتظامیہ کے بورڈ کو دینے سے متعلق ہے۔ اس سے اہم بندرگاہوں کو فیصلہ کرنے کی مکمل خودمختاری حاصل ہوسکتی ہے اور مرکزی بندرگاہوں کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو جدید بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار قانون بن جانے کے بعد بندرگاہیں وقت کی بدلتی ضروریات کے مطابق نجی بندرگاہوں کے ساتھ مقابلہ کرسکیں گی کیونکہ ڈجیٹل ٹکنالوجی اور تجارت میں آسانی پر زیادہ زور دیا جائے گا۔
ہوائی اڈوں کے بعد حکومت اب بندرگاہوں کو بھی نجی ہاتھوں میں سونپاچاہتی ہے: کانگریس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS