افغانستان کا اقتصادی بحران اور ماسکو کانفرنس

0

عباس دھالیوال

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی اکثر ماہرین کی طرف سے یہ قیاس آرائیاں لگائی جا رہی تھیں کہ آنے والے وقت میں اس ملک کو اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ امریکہ نے انخلا کے بعد جس طرح سے یکدم افغانستان کے مختلف کھاتوں کو منجمد کر دیا، اس سے آج نہیں تو کل افغانستان کے حالات بگڑیں گے۔ ابھی بھی امریکہ کی طرف سے منجمد کیے گئے فنڈس کو ریلیز کیے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اسی بیچ آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ اگر افغانستان کو فوراً امداد نہیں ملتی تو حالات سنگین ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کے اقتصادی بحران کے باعث پاکستان، تاجکستان جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی اور دیگر یوروپی ممالک کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو نے کا اندیشہ ہے۔ اس سے پہلے افغانستان کو وسیع پیمانے پر غیر ملکی امداد حاصل ہوتی رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق، برطانوی حکومت کا ایک اندازہ ہے کہ او ای سی ڈی ( آرگنائزیشن فار اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈیولپمنٹ) ممالک نے 2001 سے 2019 کے درمیان افغانستان کو 65 ارب امریکی ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔
15 اگست کے بعد سے افغانستان کی تمام دولت اور وسائل ضبط ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی امداد کے علاوہ افغانستان کو ملنے والی تمام طرح کی امداد پر پابندی لگی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں کہیں سے بھی کوئی امداد نقدی یا دوسری شکل میں نہیں مل پا رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کا خزانہ ایک طرح سے خالی ہونے کے دہانے پر ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے افغانستان کی ضبط کی گئی رقم طالبان کو واپس لوٹانے سے ایک بار پھر منع کر دیا ہے جبکہ طالبان کی جانب سے اس رقم کو واپس لوٹانے کی مانگ لگاتار کی جا رہی ہے۔ امریکہ کے نائب وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کا ماننا ہے کہ طالبان پر پابندیاں جاری رکھنا ضروری ہے۔ ان کا مقصد طالبان حکومت اور حقانی نیٹ ورک پر پابندی عائد رکھنا ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی بنیاد پر امداد ملتی رہے۔ اسی بیچ گزشتہ دنوں افغانستان کی صورت حال پر روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں اب ایک نیا سیٹ اَپ آچکا ہے اور ہم سیاسی استحکام اور حکومتی نظم و نسق کی بحالی کے لیے ان کی کوششوں کو نوٹ کر رہے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ طالبان ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیں جس میں تمام سیاسی دھڑوں اور جمہوری قوتوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو۔‘
افغانستان کی صورتحال پر ماسکو میں گزشتہ ہفتے ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں متعدد ممالک کے وفود نے حصہ لیا تھا لیکن اس میں امریکہ نے شرکت نہیں کی تھی۔ امریکہ کی عدم موجودگی پر بھی روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مایوسی کا اظہار کیا۔ کانفرنس میں طالبان حکومت کے وفد، پاکستان اور چین کے وفود سمیت 10 علاقائی ممالک کے نمائندے شریک ہوئے، تاہم امریکہ نے کانفرنس میں اپنا نمائندہ نہیں بھیجا جس کی وجہ تکنیکی مسائل بتائی گئی تھی۔ اس موقع پر کانفرنس میں روس، چین اور پاکستان کے سفارت کاروں نے افغانستان سے متعلق ٹرائیکا پلس اجلاس میں شرکت کی اور افغانستان کی تازہ ترین صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ خیال رہے کہ یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی جب طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کو بدترین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اور حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے بعد وہاں خانہ جنگی کے خدشات زور پکڑ رہے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ طالبان کی حکومت کو اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ ماسکو کانفرنس کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے مستقبل اور اسے درپیش معاشی مشکلات کے حل کے لیے ہونے والی سب سے بڑی کانفرنس قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں طالبان حکومت کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی کی سربراہی میں طالبان کا وفد شریک ہوا۔ اس سے قبل طالبان کے ترجمان اور اطلاعات و ثقافت کے نائب وزیر ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں صاف کیا تھا کہ ماسکو کانفرنس میں شریک طالبان وفد اپنی عبوری حکومت کے بارے میں خطے اور دنیا کے ممالک کو آگاہ کرے گا۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ روس کی طرف سے 2017 سے شروع کیے جانے والے ماسکو مذاکرات میں طالبان شرکت کرتے رہے ہیں۔ مجاہد نے آگے کہا کہ افغانستان میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور طالبان کا ملک پر کنٹرول ہے۔ ان کے بقول وہ دنیا اور خطے کے ممالک کو اپنی اسلامی حکومت کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس ضمن میں مختلف تجزیہ کار ماسکو میں ہونے والی کانفرنس کو اس حوالے سے اہم قرار دے رہے ہیں کہ کابل کا کنڑول حاصل کرنے کے بعد یہ طالبان کا بین الاقوامی برادری کے ساتھ پہلا اہم اور وسیع رابطہ ہے۔ اس ضمن میںعالمی امور کے ماہر زاہد حسین نے ایک نیوز رپورٹ میں کہا ہے کہ ماسکو کانفرنس علاقائی ممالک کی طرف سے طالبان کے زیر قبضہ افغانستان کے بارے میں متفقہ پالیسی وضع کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ علاقائی ممالک خاص طور پر روس، چین اور پاکستان کے طالبان کے ساتھ وسیع رابطے ان کے بقول طالبان کے بعض امور سے متعلق ان کے مؤقف میں اعتدال لانے اور انہیں اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔ زاہد نے مزید کہا ہے کہ اگرچہ طالبان کو قانونی طور پر بین الاقوامی قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے لیکن ایک بین الاقوامی کانفرنس میں طالبان کی شرکت کو ان کی سفارتی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ ادھر ایک اور افغان تجزیہ کار فہیم سادات کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے طالبان کو بھی یہ موقع ملا کہ وہ یہ جان سکیں کہ علاقائی ممالک ان کی حکومت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور مستقبل میں اسے تسلیم کیے جانے کا کتنا امکان ہے۔
اگرچہ طالبان کی کوشش ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کو درپیش اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ان کی براہ راست مدد کرے لیکن فہیم سادات کا خیال ہے کہ طالبان پر براہ راست امداد فراہم کرنے کے عوض بین الاقوامی برادری بعض شرائط عائد کر سکتی ہے۔ فہیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین، روس اور پاکستان کو افغانستان میں داعش اور بعض دیگر شدت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں تشویش ہے اور وہ طالبان سے یہ توقع کریں گے کہ طالبان دہشت گرد گروپوں کے خلاف مؤثر کارروائی کریں۔ کل ملا کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر صحیح معنوں میں ایک گھر بھی چلانا ہو تو اس کے لیے ایک خاطر خواہ رقم درکار ہوتی ہے، یہاں تو جنگ سے تباہ حال ملک کو چلانے کا مسئلہ ہے۔ ایک ملک کے نظام کو بحسن وخوبی چلانے کے لیے سبھی چیزیں درکار ہیں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS