کابل(بی بی سی ):طالبان نے گزشتہ چند ہفتوں میں تقریباً پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور اب وہ کابل تک پہنچ چکے ہیں۔ افغان حکومت نے فوجی دستوں کو اکٹھا کر کابل کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اب افغان حکومت بہت دنوں تک ٹِک نہیں پائے گی۔باقی دنیا کی طرح ظاہر ہے اس وقت مسلم ممالک کی نگاہیں بھی کابل کی صورت حال پر ہیں۔ حالانکہ چند مسلم ممالک تو اس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ چند نے اس صورت حال پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔اسلام ممالک کے اتحاد او آئی سی نے ایک بیان جاری کر کے افغانستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔او آئی سی نے اپنے بیان میں سبھی فریقوں سے تشدد بند کرنے اور مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ او آئی سی نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔حالانکہ اس بیان سے زیادہ او آئی سی نے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ ادارے نے دونوں فریقوں سے برابر فاصلہ قائم کیا ہوا ہے۔تو ایسے میں افغانستان اور طالبان کے تنازعے میں سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کس کے ساتھ ہیں؟
ایران
ہمسایہ ملک ایران افغانستان کی صورت حال سے بے چین ہے۔ افغانستان سے جان بچا کر بھاگنے والے افغان فوجی ایران میں جا کر پناہ لے رہے ہیں۔ ایک بیان میں ایران نے طالبان سے کابل اور ہرات میں موجود اپنے سفارتی کارکنان کی سکیورٹی کی ضمانت مانگی تھی۔ہرات اس وقت طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ شیعہ اکثریت والا ملک ایران، طالبان کے اثر و رسوخ میں اضافے کے بارے میں ہمیشہ سے فکر مند رہا ہے۔1998 میں شمالی شہر مزارِ شریف میں طالبان نے ایک ایرانی صحافی سمیت آٹھ ایرانی سفارتی کارکنان کا قتل کر دیا تھا۔ اس وقت ایران طالبان پر حملہ کرنے ہی والا تھا۔لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں ایران نے طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جولائی میں ہی طالبان کے چند نمائندوں نے تہران میں ایران کے وزارت خارجہ کے اہلکاروں سے ملاقات کی تھی۔
وسط ایشیا کے یہ تینوں ہمسائے ملک افغانستان کے حالات سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ افغانستان تنازعے کی وجہ سے ان کے ہاں مسلسل پناہ گزین آتے رہے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ کچھ عرصے سے ازبکستان اور تاجکستان پناہ گزینوں کی جانب اپنے رویے میں سختی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
جولائی میں جب افغان فوجی بھاگ کر ازبکستان پہنچے تھے تب ازبکستان نے فوجیوں کو واپس لوٹا دیا تھا اور سرحد پر سختی بڑھا دی تھی۔ وہیں تاجکستان نے بھی سرحد پر سختی بڑھاتے ہوئے مزید 20 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی تھی۔افغانستان میں بڑھتی مشکلات کے درمیان تاجکستان اور ازبکستان نے باہمی اتحاد کو بھی بڑھایا ہے۔ دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں کرتی رہی ہیں۔وہیں ترکمانستان نے طالبان سے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ سرحد پر طالبان کا کنٹرول مضبوط ہوتے ہی ترکمانستان نے طالبان کے نمائندگان کو مذاکرات کے لیے بلایا تھا۔ حالانکہ طالبان کہتے رہے ہیں کہ وہ ہمسائے ممالک کے لیے سکیورٹی سے متعلق خطرہ نہیں بنیں گے اور ان کا دوسرے ممالک کی زمین پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔باوجود اس کے ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان میں افغانستان کی صورتحال کے باعث فکر کا ماحول ہے۔ابھی تک وسط ایشیا کے ان ممالک نے طالبان سے متعلق کوئی بیان بھی نہیں دیا ہے۔
ترکی
طالبان کو افغانستان میں اپنے مقاصد میں مل رہی کامیابی کے باوجود ترکی ابھی بھی کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کا کنٹرول اپنے پاس رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ترکی نے دو روز قبل جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ کابل ایئر پورٹ کا استعمال میں رہنا فائدہ مند ہو گا۔ ترکی نے امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد کابل ایئر پورٹ کے کنٹرول کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ترکی نے کہا تھا کہ وہ ایئرپورٹ کی سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے گا۔حالانکہ طالبان ترکی کے ان ارادوں سے خوش نہیں ہیں۔ طالبان نے ترکی کو دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ کابل ایئر پورٹ پر اپنی فوج نہ بھیجے۔
ترکی کے صدر رجپ طیب اردغان نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا ’ہماری نظر میں طالبان کا رویہ ویسا نہیں ہے جیسا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘ انھوں نے طالبان سے اپیل کی تھی کہ وہ دنیا کو جلد از جلد دکھائیں کہ افغانستان میں امن بحال ہو چکا ہے۔انھوں نے کہا تھا ’طالبان کو اپنے ہی بھائیوں کی زمین سے قبضہ چھوڑ دینا چاہیے۔‘
طالبان نے کابل ایئرپورٹ کو کنٹرول کرنے کی ترکی کی پیشکش کو ’نفرت آمیز‘ قرار دیا ہے۔ طالبان نے کہا تھا ’ہم اپنے ملک میں کسی بھی غیر ملکی فوج کی کسی بھی صورت میں موجودگی کو قبضے کی طرح دیکھتے ہیں۔‘وہیں ترکی کے صدر نے اس موضوع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا رویہ صحیح نہیں ہے۔ترکی نیٹو اتحاد کا رکن ہے۔ حالانکہ ترکی کے فوجی افغانستان میں موجود نہیں رہے ہیں۔ لیکن ترکی نے افغانستان میں نیٹو افواج کی کارکردگی کی حمایت کی ہے۔طالبان کے خلاف لڑنے والے اور اب ہار کر ازبکستان پہنچے کمانڈر مارشل دوستم سے بھی ترکی کے ساتھ نزدیکی تعلقات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مزارِ شریف میں بھی ترکی نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ترکی کے پاکستان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں اور پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ بھی اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان طالبان اور ترکی کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان
دعووں کے مطابق پاکستان کے طالبان کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ بات چیت میں پاکستان ان تعلقات کا استعمال کرتا رہا ہے۔ حالانکہ طالبان اپنے اوپر پاکستان کے اثر و رسوخ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور پاکستان کو محض اپنا ایک اچھا ہمسایہ قرار دیتے ہیں۔افغانستان کے تنازعے کے دوران پاکستان کو اہم ہمسائے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اتوار کے روز اسلام آباد میں افغان حکومت کے نمائندوں کی پاکستانی حکومت کے نمائندوں سے ملاقات ہونے جا رہی ہے۔پاکستان کے خصوصی مندوب برائے افغانستان محمد صادق کی جانب سے ایک ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے افغانستان کے سیاسی رہنماؤں کے اعلیٰ سطحی وفد کو کچھ دیر قبل اسلام آباد میں خوش آمدید کہا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے تھا کہ ‘اس دورے کے دوران باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔افغان حکومت پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے اور افغانستان میں دخل دینے کے الزامات عائد کرتی رہی ہے۔ حال ہی میں صدر اشرف غنی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے درمیان تاشقند میں کھلی بحث ہو گئی تھی۔طالبان کے افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے کے بعد تازہ صورت حال پر پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ ‘پاکستان افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان سیاسی سمجھوتے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ تمام افغان فریق اس اندرونی سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔کابل میں پاکستان کا سفارت خانہ پاکستانیوں، افغان شہریوں اور سفارتی اور بین الاقوامی برادری کو قونصلر کے امور اور پی آئی اے کی پروازوں کے ذریعے تعاون اور ضروری مدد فراہم کر رہا ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ سفارتی عملے، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، بین الاقوامی تنظیموں، میڈیا اور دیگر کے لیے ویزا/آمد کے معاملات کو آسان بنانے کے لیے وزارت داخلہ میں ایک خصوصی بین وزارتی سیل قائم کیا گیا ہے۔پاکستان میں تیس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین بھی رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ ایسے میں پاکستان کو طالبان کے لیے سب سے اہم ہمسایہ ملک بھی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستانی وزیر اعطم عمران خان واضح کرتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی ان کا پسندیدہ نہیں ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات
اسلامی دنیا کے سب سے اہم سنی ملک سعودی عرب نے افغانستان کے مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔سعودی عرب کے افغانستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ ہی تاریخی تعلقات رہے ہیں۔ سعودی عرب نے طالبان سے بھی تعلقات قائم رکھے ہیں۔ حالانکہ 2018 میں قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات شروع ہونے کے بعد سے ہی سعودی عرب نے مذاکرات سے خود کو دور رکھا ہے۔
سعودی عرب پاکستان کے ذریعے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا تو چاہتا ہے، لیکن افغان تنازعے پر کھل کر کچھ نہیں بول رہا۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو 1980-90 کی دہائیوں میں روس کے خلاف سعودی عرب نے افغان مجاہدین کی حمایت کی تھی۔ لیکن موجودہ تنازعے سے سعودی عرب نے فاصلہ قائم کیا ہوا ہے۔ادھر متحدہ عرب امارات نے بھی موجودہ افغان تنازعے سے دوری برقرار رکھی ہے۔
قطر
قطر مسلم دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن افغان تنازعے میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ طالبان کا سیاسی دفتر قطر میں ہی ہے۔ امریکہ کے حامی ملک قطر نے اپنی زمین پر طالبان کو امریکہ سے مذاکرات کے لیے ٹھکانہ فراہم کیا اور تمام سہولیات دیں۔2020 میں طالبان کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کے تحت ہی امریکہ افغانستان سے انخلا کر رہا ہے۔