افغانوں کی قسمت میںکیا لکھاہے، یہ اوپر والا ہی جانتا ہے۔ پچھلی چار دہائیوں سے افغانستان تشدد سے متاثر ہے۔ پہلے روس کی افغان جنگ 9 سال تک چلی۔ اس کے بعد 15؍فروری، 1989 سے 6؍اکتوبر، 2001 تک افغانوں کو یہ ثابت کرنے کا موقع ملا کہ وہ امن پسند ہیں، ان پر جنگ زبردستی تھوپی گئی تھی مگر وہ باہم دست و گریباں رہے۔ اس کے بعد طالبان کی حکومت بنی تو اس کی پالیسیاں عالمی برادری کی سمجھ سے باہر تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ ان کی حکومت اسلامی حکومت ہے مگر اس کے باوجود لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ وہ حقوق انہیں نہیں دیے گئے تھے جو ان کے مذہب نے انہیں دیے ہیں۔ 7؍اکتوبر، 2001 سے افغانستان کے خلاف پھر ایک نئی جنگ شروع ہوئی۔ جنگ 30؍اگست، 2021 تک چلی۔ آج طالبان کا قبضہ ان علاقوں پر بھی ہے جن پر قبضہ 7؍اکتوبر، 2001 سے پہلے نہیں تھا، وہ مثبت باتیں کررہے ہیں، عورتوں کو جائز حقوق دینے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن فی الوقت ایسا لگتا نہیں کہ افغانستان میں قیام امن کا خواب پورا ہو جائے گا، بدامنی سے نجات پانے کی امن پسند افغانوں کی خواہش پوری ہو جائے گی، افغانستان ایک مثالی ملک بن جائے گا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے ہی ہر ملک افغانستان کو تسلیم کرنے سے ہچکچا رہا ہے، وہ وہاں کی تبدیلیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ کچھ ممالک مثبت تبدیلی لانے کے کوشاں ہیںاور یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کا اڈہ نہ بنے، وہ امن پسند لوگوں کا ایک ایسا ملک بنے جس کی طرف دنیا امید بھری نظروں سے دیکھے، جو دنیا میں مثبت تبدیلیوں کی امید بندھائے، اس لیے روس کی میزبانی میں منعقد ہونے والی افغان کانفرنس کی بڑی اہمیت ہے۔ 20 اکتوبر کو منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ہندوستان کو بھی مدعو کیا گیا ہے اور وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ ہندوستان اس کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ 2018 کے بعد ہندوستانی نمائندوں کی یہ دوسری براہ راست ملاقات ہوگی۔توقع رکھی جانی چاہیے کہ یہ ملاقات ہندوستان اور افغانستان کے رشتے میں ایک مثبت موڑ لانے کی وجہ بنے گی اور طالبان نمائندے ہندوستان سے افغانستان کے تاریخی تعلقات کے مدنظر بھی اور پچھلی دودہائی میں افغانوں کے لیے شاندار کام کے مدنظر بھی ہندوستان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے گفتگو کریں گے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ پچھلی دودہائی میں افغانوں کی فلاح و بہبود اور افغانستان کی تعمیر نو میں کام کے لحاظ سے ہندوستان اس علاقے کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ رہا ہے جبکہ 3 ارب ڈالر کی مدد کے ساتھ وہ دنیا بھر کے ملکوں میں پانچواں بڑا عطیہ دہندہ تھا۔ اس نے افغان پارلیمنٹ کی عمارت کے ساتھ سڑکوں، باندھ، اسکول اور دیگر عمارتوں کی تعمیر میں نہایت ہی اہم رول ادا کیا ہے۔
20؍ اکتوبر کو ماسکو میںمنعقد ہونے والی افغان کانفرنس میں وطن عزیز ہندوستان کے علاوہ چین، ایران اور پاکستان کے نمائندے شریک ہوں گے۔ ایک دن قبل 19 اکتوبر کو طالبان کی چین، روس اور امریکہ کے ساتھ ’ٹرائکا پلس میٹنگ‘ کا پروگرام ہے۔ مطلب یہ کہ 20؍تاریخ تک یہ بات سامنے آجائے گی کہ افغانستان کے بارے میں اہم ممالک کیا سوچتے ہیں مگر سب کچھ 20؍اکتوبر کو ہی نہیں سامنے آپائے گا، یہ بات بھی طے ہے، کیونکہ 27؍اکتوبر کوایران اسی طرح کی ایک کانفرنس منعقد کر رہاہے۔ تہران کانفرنس میں شرکت کے لیے اس نے افغانستان کے پڑوسی ملکوں چین، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان کے ساتھ روس کو مدعو کیاہے۔ مطلب یہ ہے کہ روس اس خطے میںخود کو بااثر بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور خطے کے دیگر ملکوں کی طرف سے بھی اس کے دائرۂ اثر کو وسعت دینے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ افغانستان کو دائرۂ اثر میں لینے سے چین کو بالواسطہ طور پر روکا جا سکے۔ اس صورتحال میں وطن عزیز کو ایک ایک قدم محتاط طریقے سے اٹھانا ہوگا، اسے روس کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا مگر روس سے زیادہ قربت کا اظہار امریکہ کی ناراضگی کی وجہ بنے گا، اسے بھی نظرانداز نہیں کرنا ہوگا، کیونکہ اس کے لیے جتنی اہمیت روس کے ساتھ کی ہے اس سے کم اہمیت امریکہ کے ساتھ کی نہیں ہے۔ چین سے مقابلے کے لیے ’کواڈ‘ کی اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ خیر، آنے والے دو ہفتے دنیا کی افغان پالیسی کے لحاظ سے بھی اہم ہوں گے۔ ان دنوں میں ہونے والی عالمی سرگرمیاں یہ بتائیں گی کہ افغانستان میں حالات کیا رہیں گے اور افغانستان کے حالات کے اثرات دیگر ملکوںپرکیا پڑیں گے۔
[email protected]
افغان کانفرنس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS