افغان بچوں کو ملے گا حوصلہ افزا ماحول؟

0
peacekeeping.un.org

امریکہ کے فوجیوں کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا ہے، اشرف غنی اپنا اقتدار بچانے کے لیے فکر مند ہیں تو طالبان افغانستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو دائرۂ اثر میں لے لینے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ اندیشہ فطری طور پر ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی سے متاثر ہو جائے گا۔ عام افغانوں کی زندگی جتنی آج تباہ ہے، اس سے زیادہ تباہ ہو جائے گی۔ دعا یہی کی جانی چاہیے کہ ایسا نہ ہو اور کوشش بھی کی جانی چاہیے کہ ایسا نہ ہو، کیونکہ ایسا ہوا تو افغانستان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا، بچو ں کے خواب ان کی آنکھوں میں ہی دم توڑ دیں گے لیکن افغانوں کے سبھی گروپوں کو مل کر بچوں کے لیے ماحول بہتر اور حوصلہ افزا بنانا چاہیے۔ عالمی برادری کو افغانستان میں اسکول اور کالج بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر وہ افغانستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں تعاون نہیں دیتے تو پھر انہیں افغانوں سے کوئی شکایت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات طے سی ہے کہ افغانستان کے حالات اس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک افغانوں کی اکثریت زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہوگی۔ افغان لیڈروں کو اور عالمی لیڈروں کو بھی یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ افغانستان میں 65 سال یا اس سے اوپر کی عمر کے لوگوں کی تعداد صرف 2.4 فیصد ہے، 15سے 64 سال کی عمر کے لوگوں کی آبادی 55.3 فیصد ہے جبکہ 14سال سے کم عمر کے لوگوں کی آبادی 42.3 فیصد ہے یعنی افغانستان میں خانہ جنگی چھڑ گئی تو یہ آسانی سے نہیں رکے گی اور ایک نئی جنگجو نسل تیار ہو جائے گی۔ افغانوں سے لڑکر خود ہی سوویت یونین اور پھر امریکہ کو جنگ ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے تو افغان جنگجوؤں نے اگر دیگر ملکوں میں دلچسپی لینی شروع کر دی، پھر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ بات اس کے لیے درد سر بن جائے گی، اس لیے بہتر یہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش عالمی برادری کرے، افغانوں کو پرامن زندگی جینے دے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS