صدر جمہوریہ کا خطاب

0

کہتے ہیں کہ پوت کے پائوں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔ یعنی بچہ کے مستقبل کے آثار شروع میں ہی ظاہر ہوجاتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر پوت کے نیک و بد ہونے، خوش اندام، خوش خصال اور خوش بخت یا بدبخت ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح آج ہونے والی صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو کی تقریر میں بھی مودی3-حکومت کے انداز حکمرانی کے آثار نظرآرہے ہیں۔ 18 ویں لوک سبھا کی تشکیل کے بعد دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے نہ صرف مودی حکومت کی کھل کر تعریف کی بلکہ اسے ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بہترحکمرانی قرار دیتے ہوئے ناکامیوں کیلئے اپوزیشن کو ہدف تنقید بھی بنا ڈالا۔اس دوران خاتون صدر نے مودی حکومت کی افسانوی تعریف کرتے ہوئے ایمرجنسی کا بھی ذکر نکال ڈالا۔نصف صدی گزرنے کے بعد ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے صدر دروپدی مرمو نے کہا کہ یہ جمہوریت کیلئے ایک سیاہ دن تھا، جسے ہندوستان کا کوئی بھی فرد بھول نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے چند مہینوں میں ہندوستان بطور جمہوریہ 75 سال مکمل کرنے والا ہے۔ ہندوستانی آئین نے گزشتہ دہائیوں میں ہر چیلنج اور امتحان کا مقابلہ کیا ہے۔ ملک میں آئین کے نفاذ کے بعد بھی آئین پر کئی حملے ہوچکے ہیں۔ 25 جون 1975 کو لگائی گئی ایمرجنسی آئین پر سیدھا حملہ تھا، جب اس کا نفاذ ہوا تو پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی۔ ہم اپنے آئین کو عوامی شعور کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔این ای ای ٹی (نیٹ)پیپر لیک پر حکومت کے بجائے اپوزیشن کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپر لیک ہونے اور امتحان میں بے ضابطگیوں کے معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ پارٹی سیاست سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری بھرتیوں اور امتحانات میں پاکیزگی اور شفافیت ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ بھی صدر جمہوریہ نے اور بھی بہت کچھ کہا۔ عہدہ کے وقار کا تقاضا ہے کہ محترمہ دروپدی مرمو کی تقریر کے ہر لفظ کو مقدس جان کراسے حرز جان بنالیا جائے لیکن اس کا کیاکیجیے کہ احوال واقعی اس کی اجازت نہیں دیتے۔
صدر کے خطاب میں اپنی حکومت کی تعریف کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل بھی یہی کچھ ہوتارہاہے۔ہر عام انتخابات کے بعد پہلے اجلاس کے آغاز پر جب پہلی بار ایوان زیریں لوک سبھا کا اجلاس ہوتا ہے، صدر جمہوریہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں سے خطاب کرتے ہیں۔صدر کے خطاب میں بنیادی طور پر حکومت کی پالیسی ترجیحات اور آنے والے سال کے منصوبوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
محترمہ دروپدی مرمو نے بھی یہی کیا،اسے قبول کر لیاجانا چاہیے لیکن اپنی تقریر میں انہوںنے بے سبب اور بے محل ایمرجنسی کا ذکر اور پرچہ لیک معاملے میں اپوزیشن کو ہدف تنقید بناکر یہ بتادیا کہ اگلے پانچ برس بھی ایسے ہی گزریں گے۔کامیابی کاسہرا مودی حکومت کے سر باندھاجائے گااور ناکامیوں کا سارانزلہ اپوزیشن پر گرایاجائے گا۔ آج کی ناکامی چھپانے کیلئے ماضی کی غلطیاں کریدی جائیں گی، ملک کے عوام کو موضوع سے بھٹکانے کیلئے تاریخ کے کوڑے دان سے غلاظتیں نکا ل کر ناقدین کے جامے داغدارکیے جائیں گے اوراس کی آڑمیں مودی حکومت کی غیر علانیہ ایمرجنسی جاری رہے گی۔اظہار رائے کی آزادی سلب کی جاتی رہے گی، جمہوری اصولوں کوپامال کرتے ہوئے حکمرانی کے آمرانہ تیور سے تمام مخالفین کو زیر کیاجاتارہے گا۔ شہریوں کے حقوق تلف کیے جاتے رہیں گے۔اقلیتوں اور دلتوں کے حقوق سلب کیے جاتے رہیں گے۔ مسلم بستیاں اجاڑی جاتی رہیں گی۔قانون کی حکمرانی کے نام پر حکمرانوں کا اپنا خانہ ساز قانون لاگو کیاجائے گا۔ تفتیشی ایجنسیاں بغیر مقدمہ چلائے لوگوں کو گرفتار کرتی رہیں گی۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندے حتیٰ کہ وزرائے اعلیٰ تک کی دادوفریاد کاگلا گھونٹا جاتارہے گا۔ کھائوں گا نہ کھانے دوں گا والی سرکار تمام قومی وسائل اور ذرائع اپنے پسندیدہ سرمایہ داروں میں تقسیم کرتی رہے گی اور وہ بغیر ڈکار کے ہضم کرتے رہیں گے۔انتخابی بانڈز کے نام پر رشوت ستانی کوقانونی جواز فراہم کیاجائے گا۔فو ج کو ٹھیکہ پر لیے گئے نوجوانوں سے چلایاجائے گا۔سرکاری اداروںمیں بھرتیاں بند رہیں گی۔ امتحانات کے پرچے لیک ہوتے رہیں گے۔بے روزگاری کا ذکراور اپنے حق کامطالبہ بغاوت ٹھہرے گا۔شہریوں کو بھکاری کی طرح5کلو اناج دینے کے باوجود یہ کہاجائے گا کہ ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔افراط زر، مہنگائی اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے مذہب کا استعمال کیاجاتارہے گا۔
اہل نظر کا یہ شکوہ بجا ہے کہ صدر جمہوریہ دروپدی مرموکاخطاب مودی3-حکومت کے جمہور مخالف انداز حکمرانی کی تلخیص ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS