ایک حکیم کا قول ہے کہ بدعملی سے زیادہ نقصان دہ بے عملی ہے۔ بے عملی، اعصاب، عادات واطوار کے ساتھ ساتھ اخلاق اورکردار کو بھی متاثر کرتی ہے۔ بے عملی کی لعنت کچھ نام نہاد مذہبی رہنمائوں اورپیشوائوں کے اس وطیرہ کی وجہ سے بھی ہے جس میں وہ حد سے زیادہ توکل اور تقدیر پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں اوراستدلال دیتے ہیں کہ مقدر سے زیادہ نہیں ملے گا۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ مقدر سے زیادہ نہیں ملے گا مگرصاف طورپر اکابرین اور مذہبی پیشوائوں کا قول ہے کہ ہر شخص کواتنا ہی ملتا ہے جتنی وہ کوشش کرتا ہے۔ ان دونوںاقوال کو الگ الگ دیکھنے کے بجائے بہ نظر مجموعی دیکھنا ضروری ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی بدحالی یا مفلسی کا سبب یہ بھی ہے کہ کردار سازی اسلامی شعائر اور اسلامی وضع قطع کی حوصلہ افزائی کے لئے جس طرح تحریکی سطح پر کام ہوتا ہے اقتصادی بدحالی کو دورکرنے کے لئے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی جاتی ہے۔
مسلمانوں میں معاشی خوشحالی کیلئے کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔ ان کی اس بات میں سچائی نظر نہیں آتی کیونکہ تعلیم جو خوشحالی اور ترقی کی ضمانت ہے اس کیلئے گزشتہ نصف صدی سے مسلمانوں کے اندر کئی تحریکیں مختلف انداز سے چلائی گئیں مگر پڑھنے لکھنے اور اقتصادی خوشحالی کے لئے اس ملت کے افراد دوسری قوموں کی طرح ابھی بھی مائل نہیںہیں۔ شرح خواندگی پوری دنیا میں مسلمانوں کے اندر کم ہے جہاں مسلمانوں کی اپنی سرکاریں ہیں وہاں بھی کم و بیش یہی حال ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ’’تقدیر‘‘ کے سہارے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ بھی یہ بات کہتے ہیں کہ وہ دین اسلام سے واقف نہیں ہیں کیونکہ دین میں محنت و عقل دونوں کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔ قرآن کی کسی آیت یا حدیث کے کسی جملہ یا عبارت کاحوالہ نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ محنت سے جی چرانا چاہئے یا تقدیر پر بھروسہ کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا چاہئے بلکہ کہا یہ گیا ہے کہ ہاتھ پاؤں ہلانے کے بعد ساری تدبیریں اور کوششیں کرنے کے بعد پھر اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے جب ہی اللہ کی مدد آئے گی۔
اللہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ جب کسی کام کا عزم کرو تو سوچ سمجھ کر اور مشورے سے کرو اور اللہ پر مکمل بھروسہ کرکے کرو۔ اللہ پر بھروسہ کرنے سے اللہ کی مدد ملے گی، چستی و توانائی ، ہمت اور حوصلہ بڑھے گاکم نہیں ہوگا، سستی اور کاہلی ہاتھ نہیں پکڑے گی، اندیشے اور گھبراہٹ نہیں ہوں گے۔ دین تو سستی و کاہلی کو دفن کرتا ہے، زندہ نہیں کرتا، کاہلی اور سستی تو بے دینی کی دین ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے ۔
’’توکل ، بے عملی اور تعطل کا کوئی بہانہ اور گوشۂ خمول کا کوئی تکیہ نہیں ہے بلکہ انفرادی و اجتماعی زندگی کی تمام سرگرمیوں میں عزم و عمل کی بنیاد ہے۔‘‘
جو لوگ کام چور ہوتے ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں پھر ان کے اندر بے شمار عیوب آہستہ آہستہ جنم لے لیتے ہیں۔ ایسے لوگ محنت اور مشقت سے جی چراتے ہیں اور تقدیر اور قسمت کو کوستے ہیں اور کہتے ہیں ’’قسمت میں نہیں تھا، قسمت کی بات ہے۔‘‘ ایسی بات وہ غلط کرتے ہیں اور خلاف حق کہتے ہیں۔
اگر کوئی طالب علم پڑھتا نہیں ہے، محنت نہیں کرتا، کلاس سے غائب رہتا ہے، ہوم ورک نہیں کرتا اور بار بار وہ امتحان میں فیل (ناکام) ہوتا ہے تو کیا یہ قسمت کی بات ہے یا اس کی کوتاہی اور غفلت کی بات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کو اپنی محنت کا پھل نہیں ملتا۔ ملتا ہے بشرطیکہ وہ محنت جی جان سے کرتا ہو اگر بے دلی سے کرتا ہے تو ظاہر ہے اسے کیسے پھل ملے گا۔ دین جو بات سکھاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسان ہل چلائے، زمین اچھی طرح ہموار کرے، اچھے بیج کا انتخاب کرے اور کھیت میں بیج بوئے ، فصل کی ہر طرح نگہبانی اور نگرانی کرے اور اللہ پر بھروسہ رکھے۔ یہ نہیں ہے کہ بغیر کچھ کئے کسان اللہ پر گھر میں بیٹھے بیٹھے بھروسہ کرے گا اور کھیت میں فصل خود بخود تیار ہوجائے گی یہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا غلط مطلب ہے۔ دین کی غلط تعبیر و تشریح سے دینی ذہن نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ بے دینی کا ایسا ذہن پیدا ہوتا ہے جو کسی کام کا نہیں ہوتا ہے نہ دنیا کا نہ آخرت کا۔ دنیا کو آخرت کی کھیتی بتایا گیاہے۔ توکھیتی کیسی ہونی چاہئے یہ بات محنت کش کسان یا محنت کش مزدور سے سیکھنا چاہئے اگر کوئی بے محنتی کسان اور بے محنتی مزدور سے سیکھے گا تو اس کیلئے نقصان ہی نقصان ہے ۔
آج مسلمان ہر دوڑ اور ہر میدان میں پیچھے ہیں تو محض اپنی بے عملی اور کاہلی کی وجہ سے ہے جب تک مسلمان اس مرض میں مبتلا رہے گا نہ اس کے اندر صحت مند سوچ اور سمجھ آئے گی اور نہ جسمانی طور پر تندرست اور توانا رہے گا۔ ٭٭