نئے سال میں پرانے سال کی سرگرمیوں کا حساب: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہر نئے سال کی ابتدا کے وقت گزرے ہوئے سال کا محاسبہ بہت ضروری ہے کیوں کہ ہر گزرنے والا سال صرف ایک کیلنڈر نہیں ہوتا،وہ ایک تاریخ بن جاتا ہے۔اس کا ایک ایک لمحہ اہمیت کا حامل ہو تا ہے۔ پرانے سال یعنی 2024پر جب ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ تاریخ کے جھروکے سے جھانکتا نظر آتا ہے۔اس سال سماجی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے بہت ساری تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ سال کے شروع میں پارلیمانی انتخابات کا بڑا شور تھا۔این ڈی اے کے مقابل جو اتحاد تھا،اس میں مضبوطی تو آرہی تھی لیکن انتخابات سے قبل اس میں سے کئی اہم لوگ جاچکے تھے یا پھر خود اپنے دم پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے تھے۔خدا خدا کر کے الیکشن ہوئے۔این ڈی اے کا جو دعویٰ تھا، اس کی ہوا نکل گئی۔نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کی مدد سے کسی طرح این ڈی اے کی سرکار بنی۔ کانگریس،سماجوادی اور ممتا بنر جی نے اچھی خاصی سیٹیں حاصل کیں۔پھر پرینکا گاندھی بھی الیکشن جیت کر لوک سبھا پہنچ گئیں۔

سال کی شروعات آدھے ادھورے رام مندر کے افتتاح سے ہوئی۔اس کا مقصد آنے والے عام انتخاب میں بی جے پی کا ووٹ کی شکل میں فائدہ اُٹھانا تھا۔خوب تشہیر کی گئی۔ پانی کی طرح پیسہ بہا یا گیا، مگر بی جے پی کو اس کا فائدہ انتخابات میں نہیں ملا،اس کے بر عکس ایودھیا میں بی جے پی کو کراری شکست ہوئی۔بی جے پی 400سے زائد سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہی تھی جو ایک خواب بن کر رہ گیا۔

پورے سال منی پور کے فسادات چھائے رہے۔ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔وزیراعظم اب تک وہاں نہیں گئے۔منی پور میں کوکی اور میتیئی فرقوں کی آپسی لڑائی نے فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کرلی ہے۔بی جے پی سر کار وہاں امن قائم کر نے میں ناکام رہی ہے۔یہی حال یوپی کے بہرائچ اور سنبھل میں ہوا۔وہاں ہندو مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔

سال بھر کسانوں نے دہلی کے سرحدی علاقوں میں دھرنا دیا اور مظاہرے کیے۔راہل گاندھی دھرنے کے مقام اور پارلیمنٹ احاطے میں بھی کسانوں کے مسائل سن کر انہیں لوک سبھا میں اُٹھا چکے ہیں۔کسانوں کی خاص ڈیمانڈ دیگر چیزوں کی طرح گنے پر بھی ایم ایس پی ہونی چاہیے۔ کسانوں کی حالت اچھی نہیں ہے جبکہ کسان ہی ہمارا اَن داتا ہے۔اسے بیج،کھاد اور پانی بھی مہنگے داموں لینا پڑتا ہے اور اس کی فصل کو سرکار اونے پونے داموں میں خریدتی ہے۔جبکہ انہیں بازار سے ہر شئے ایم ایس پی پر ہی خریدنی پڑتی ہے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت، جگجیت سنگھ دلیوال، سرون سنگھ پنڈھیر وغیرہ نے اپنی بات مرکز کے علاوہ پنجاب،ہریانہ،یوپی،اترا کھنڈ کی سرکاروں تک پہنچانے کی پُرامن کوشش کی،مگر ان کی بات نہیں سنی گئی۔کسانوں نے جب دھرنے دیے،جلوس نکالے،ٹریکٹر لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو انہیں لاٹھی چارج،پانی کی بو چھاریں اور آنسو گیس کے گولے ملے۔مگر سر کاروں کو پتہ نہیں کہ عوامی طاقت کے آگے سب کو جھکنا پڑتا ہے۔اب سپریم کورٹ کسانوں کے معاملے میں مداخلت کر رہا ہے۔

2024 میں سپریم کورٹ کے کئی اہم فیصلے سامنے آئے،خاص کر یوپی اور اترا کھنڈ حکومتوںکے فرمان کہ کانوڑ یاترا کے دوران راستے میں پڑنے والی دکانیں، ہوٹل اور ٹھیلے والے اپنا نام اور پہچان ظاہر کرنے والی تختیاں لگائیں گے۔اس فرمان سے فرقہ پرستی کو ہوا ملنے لگی تھی۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے ان سرکاروں کے فرمان کو فوری طور پر روک دیا۔اسی طرح یوپی،اترا کھنڈ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بلڈوزر کا استعمال ایک قوم کے خلاف سزا کے طور پر ہو نے لگا تھا۔بلڈوزر ایک فیشن بن گیا تھا۔ بعض معاملات میں کیس عدالت میں ہونے کے باوجود صوبائی سرکاروں نے ملزم کے گھر،دکان اور دیگر عمارتوں پر بلڈوزر چلادیا تھا۔بلڈوزر ایک قوم میں دہشت اور خوف کی علامت بن گیا تھا۔سپریم کورٹ نے ایک حکم سے بلڈوزر کے غلط استعمال پر روک لگائی۔ ابھی تازہ تازہ یہ ہوا کہ ملک میں ہر بڑی مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ہونے کی درخواستیں عدالتوں میں آنے لگی تھیں۔سپریم کورٹ نے اس پر بھی قدغن لگایا اور کوئی بھی نیا معاملہ لینے سے عدالتوں کو منع کردیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی ادارہ ہونے کا معاملہ لمبے عرصے سے عدالتوں میں تھا۔اب آکر سپریم کورٹ کی سات رکنی بینچ نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال اور برقراررکھا۔
سال بھر طلبا اور طالبات کا ہنگامہ ہوتا رہا۔ دھرنے، ہڑتال،جلوس،گھیرائو اور مظاہروںکے ذریعہ طلبا و طالبات نے اپنی مانگیں رکھیں۔بہت سے امتحانات کے پر چے لیک ہوتے رہے۔حد تو تب ہوگئی جب میڈیکل انٹرنس ایگزام نیٹ کا رزلٹ بھی شک کے دائرے میں آگیا۔ایک ہی مرکز کے کئی طلبا ٹاپ ہوئے۔یو جی سی نیٹ کا امتحان بھی پیپر لیک ہونے کے باعث منسوخ ہوا۔بی پی ایس سی کے امیدوار مستقل دھرنے پر بیٹھے ہیں اور امتحان دوبارہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

جون میں مرکز میں این ڈی اے سر کار بننے کے بعد ہریانہ اور کشمیر میں اسمبلی الیکشن ہوئے۔ہریانہ میں امید سے کہیں پرے بی جے پی کی جیت ہوئی۔کئی جگہ اس پر بے ایمانی کرنے کے بھی الزامات لگے۔دوسری طرف کشمیر میں اندازے کے عین مطابق نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی فتح ہوئی۔این سی کی سر کار بنی۔عمر عبداللہ وزیراعلیٰ بنے۔سرکار نے اپنی پہلی ہی میٹنگ میں 370کو ہٹائے جانے کا بل پاس کیا۔اس کے بعد مہاراشٹراور جھارکھنڈ میں اسمبلی الیکشن ہوئے۔جھارکھنڈ میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘کی اکثریت سے جیت ہوئی جبکہ مہاراشٹر میں این ڈی اے کی جیت۔یہ جیت شک کے گھیرے میں آگئی اور الیکشن میں دھاندھلی کے الزامات بی جے پی بلکہ پورے این ڈی اے پر لگے۔ آخر کار این ڈی کی سرکار بنی۔فڑنویس مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ بنے۔ شندے اور اجیت پوار اب بھی ناراض ہیں۔ مہا راشٹر میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

یوم آئین 26نومبر سے منایا گیا۔پارلیمنٹ کے دونوں اجلاس میں کافی بحث ہوئی۔ حزب اختلاف اور صاحب اقتدار جماعت میں ایک ایک نقطے پر زوردار نوک جھونک ہوئی۔ویسے اکثر صاحب اقتدار ذمہ دار لوگ ایوان سے غائب ہی رہے۔ راہل گاندھی، کھرگے، پرینکا گاندھی، اکھلیش یادو،عمران پر تاپ گڑھی،ترنمول کانگریس اور دیگر مخالف پارٹیوں کے ایم پی نے آئین کی بحث میں حصہ لیا۔اپنے ایک بیان میں مرکزی وزیرداخلہ نے یہاں تک کہہ ڈالا:’’جو لوگ ہر وقت امبیڈکر امبیڈکرکرتے رہتے ہیں، اتنا اگر بھگوان کا نام جپتے تو سات جنموں تک سورگ ملتا۔۔۔‘‘ اس بیان پر پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان میں مذمت کی گئی۔ہر سیاسی پارٹی میدان میں آگئی اور امت شاہ کے خلاف جلسے اور جلوس نکالنے لگی،مگر بی جے پی پر اس کا کوئی اثر ہوا ہے نہ ہوگا۔

بہار میں این ڈی اے کی حا لت اچھی نہیں ہے۔نتیش کمار کے ارادے کیا ہیں ؟یہ پتہ لگانا ذرا مشکل ہے۔وہ اس وقت ایسے موڈ میں ہیں کہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔بہار میں 2025 میں الیکشن ہونے ہیں۔اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ خاصا مضبوط ہے۔اوپر سے امت شاہ کا بیان کہ این ڈی اے بغیر کسی سی ایم امیدوار کے میدان میں اترے گی،الیکشن کے بعد سی ایم طے ہوگا۔امت شاہ کے اس بیان نے کچھ اور ہی اشارے دیے ہیں۔ایسے میں نتیش کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔بی جے پی اور جے ڈی یو میں بھی تنائو بڑھ گیا ہے۔ بہار میں یوں بھی نتیش کمار کی ریلیاں اور یاترائیں منسوخ ہو رہی ہیں۔گرنے دالے پلوں کی بھاری تعداد بھی نتیش کی پریشانی بڑھا سکتی ہے۔این ڈی اے بکھرنے کو ہے۔چراغ پاسوان بھی پینترے دکھا رہے ہیں۔اسی طرح مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور دہلی میں این ڈی اے اتحاد کی حالت اچھی نہیں ہے۔دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس،بی جے پی کا اچھی طرح مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔

سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی سالگرہ بڑے جوش و خروش سے منائی گئی۔بہار میں ایک پروگرام کے دوران گایک نمیتانے جب بھجن میں اللہ بھی گایا تو منتظمین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ہنگامہ اتنا بڑھا کہ نمیتا کو معافی مانگنی پڑی۔دسمبر کے آخری دنوں میں سابق وزیراعظم اور ماہراقتصادیات منموہن سنگھ کا انتقال پوری ہندوستانی قوم کو غمزدہ کر گیا۔ منموہن سنگھ دو بار وزیراعظم رہے اور انہوں نے ہندوستانی معیشت کو ابھارنے اور عالمی شناخت دینے کا غیر معمو لی کار نامہ انجام دیا۔وہ ہندوستان کی شان تھے۔وہیں اس سال ضمنی انتخابات نے بھی سب کو حیران کیا۔

اردو کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ اردو کے کئی سرکاری ادارے کام کے معاملے میں غیر فعال رہے۔خاص کر اترپردیش اردو اکادمی،بہار اردو اکادمی اور کچھ حد تک دہلی اردو اکادمی بھی اس میں شامل ہے۔شکر خدا کا کہ دہلی اردو اکادمی میں پروفیسر شہپر رسول کے آنے کے بعد طوفانی رفتار سے کام ہوئے۔یہی حال قومی کونسل کا بھی ہے۔وہاں بھی ڈاکٹر شمس اقبال کے آنے کے بعد اردو کے حق میں کچھ کام ہوئے ہیں۔رضا لائبریری،رامپور بہت دنوں تک ڈائریکٹر کے عہدے سے خالی تھی۔سرکار کسی غیر مسلم امیدوار کی تلاش میں تھی۔یہی معاملہ خدا بخش لائبریری،پٹنہ کا بھی ہے۔بعض لوگوں کے مطابق دونوں جگہ اردو کے کام نہ کے برابر ہو رہے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS