راجکمار سنگھ
اگر اپنی تاریخ کے سب سے برے دور سے گزرنے والی کانگریس دَشا- دِشا بدلنا چاہتی ہے تو اسے 24سے 26فروری تک رائے پور میں ہونے والے اجلاس میں کچھ سخت اور بڑے سیاسی فیصلے لینے ہی پڑیں گے۔ صرف قرارداد اور تقریروں کے ذریعہ بی جے پی اور مودی کو کوسنے سے زمینی سیاسی حقیقت نہیں بدلنے والی۔ راہل گاندھی کی کنیا کماری سے کشمیر تک ساڑھے تین ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل بھارت جوڑو یاترا مسلسل انتخابی شکستوں سے پارٹی میں پیدا ہونے والی مایوسی کو دور کرنے اور خود راہل کی شبیہ کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے، لیکن صرف اس سے کانگریس کی پریشانیاں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ 125 دنوں سے زیادہ جاری رہنے والی اس قواعد کے باوجود نہ تو اقتدار کے عزائم کی وجہ سے بڑھتی ہوئی گروپ بندی پر قابو پایا جاسکا ہے اور نہ ہی دیگر اپوزیشن پارٹیوں میں کانگریس کی قبولیت میں اضافے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ناقدین جو بھی کہیں، یاترا کی شروعات کے لئے کنیا کماری کا انتخاب بھی حکمت عملی کے لحاظ سے درست تھا۔ بھلے ہی کیرالہ میں بائیں بازو کے اتحاد (LDF) کی حکومت ہے، لیکن کانگریس کی قیادت والی UDF بڑی طاقت ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں نہ صرف راہل وائناڈ سے چنے گئے، بلکہ ریاست کی 20 سیٹوں میں سے کانگریس پارٹی اکیلے اور یو ڈی ایف کل 18سیٹیںجیتنے میں کامیاب رہی۔بی جے پی کا تو کھاتہ ہی نہیں کھلا، سی پی ایم اور آر ایس پی بھی ایک ایک سیٹ پر سمٹ گئیں۔ اگلے لوک سبھا انتخابی چنائو میں کیرالہ سے کانگریس کو بڑی امیدیں ہیں۔
یہی بات آرٹیکل 370-کے خاتمے کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ وہاں علاقائی پارٹیاںنیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بڑی سیاسی طاقت رہی ہیں اور دونوںقومی پارٹیاں کانگریس-بی جے پی علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد پر منحصر ہیں۔بھارت جوڑو یاترا کی شروعات سے پہلے ہی سینئر لیڈرغلام نبی آزاد نے اپنی الگ علاقائی پارٹی بناکر کانگریس کو جھٹکا دیا، لیکن یاترا کے اختتام پر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دونوں کا شامل ہونا حوصلہ افزا مانا جا سکتا ہے، لیکن کنیا کماری سے کشمیر کے درمیان بھی عظیم ہندوستان ہے، جو ملک کی انتخابی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کچھ ریاست تو بھارت جوڑو یاترا کے روٹ میں ہی شامل نہیں کی گئیں، لیکن جوکی گئیں وہاں بھی ذاتی اقتدار کی چاہت کو پارٹی مفادات پر ترجیح دینے والے گٹ باز لیڈران پر لگام کسنے میں وہ کامیابی نظر نہیںآئی۔ یہی بات اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان کانگریس کی قبولیت کے سلسلے میں کہی جا سکتی ہے۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک زیادہ تر اپوزیشن پارٹیاں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے کنارہ ہی کرتی نظر آئیں۔ اوڈیشہ میں مسلسل بی جے پی کا وجے رتھ روکنے والے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک، کانگریس سے بغاوت کرکے وائی ایس آر کانگریس بنا کر آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر قابض جگن موہن ریڈی اور تلنگانہ کے ہردلعزیز وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر رائو کو یاترا کے اختتام پرنہ بلانے کی سیاسی حکمت عملی کو راہل پالیسی ساز ہی بہتر سمجھتے ہوں گے، لیکن جن اپوزیشن لیڈران کو بلایا، ان میں سے بھی کئی بڑے چہرے نہیں آئے۔ یہ کانگریس کے لئے اچھی علامت نہیں ہے۔
مانا کہ ٹی ایم سی سپریمو اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی عرصے سے کانگریس سے دوری بناکر چل رہی ہیں۔ دہلی کے بعد پنجاب میں بھی کانگریس سے اقتدار چھیننے والی عام آدمی پارٹی سے بھی دوری کی مجبوری سمجھی جاسکتی ہے، لیکن اترپردیش کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں ایس پی اور بی ایس پی نے جس طرح کانگریس کو مسترد کیا ہے، اس کا قومی سیاست پر گہرا اور دور رس اثر پڑے گا۔منڈل سیاست کو کمنڈل سیاست میں ڈبونے کی بی جے پی کی حکمت عملی اتر پردیش میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے باوجود اسے وہاں ایس پی- بی ایس پی ہی ٹکر دے سکتی ہیں، لیکن حزب اختلاف کے وسیع اتحاد کے بغیر اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ کانگریس کو اتر پردیش میں بہار کی طرح عظیم اتحاد بنانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ایس پی-بی ایس پی کانگریس سے خوفزدہ ہیں، تو اس کے ذہن میں ماضی کے تجربات ہیں۔اس خدشہ کو دور کرنے کی ایماندار کوشش کانگریس کو ہی کرنی ہوگی اور اس کے لئے زمینی حقیقت کو قبول کرتے ہوئے اناپرستی کی قربانی دینی ہوگی۔ راشٹریہ لوک دل سمیت کچھ چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کی سوچ کے مغربی اتر پردیش سے باہر تو بڑے نتائج نہیں آئیں گے۔ کانگریس کو بڑا جھٹکا بہار کی دوست پارٹیوں نے دیا ہے۔ وہاں کانگریس کی شراکت والی جس مہاگٹھ بندھن کی سرکار ہے، اس کی دونوں بڑی پارٹیاں آر جے ڈی اور جے ڈی (یو) کے قائدین بھی یاترا کے اختتام پر نہیں آئے۔ کیا تیجسوی یادو اور نتیش کمار بھی راہل کے دورے سے کانگریس کے بڑھتے ہوئے عزائم سے پریشان ہیں؟
بھارت جوڑو یاترا کو جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے علاوہ تمل ناڈو اور مہاراشٹر کے کانگریس کے متر دلوں کا ہی ساتھ مل پایا۔اس درمیان بی آر ایس، ایس پی،اے اے پی، سی پی ایم اور سی پی آئی جیسی جماعتوں کے قائدین کھمم میں متحد ہوکر اپنے ارادوں کا اشارہ بھی دے ہی چکے ہیں۔ لوک سبھا کے موجودہ ممبران کی تعداد پر نظر ڈالیں تو سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس کے پاس بھی صرف 52سیٹیں ہیں، جبکہ بی جے پی کے پاس300سے زیادہ۔ اگر بی جے پی مخالف پارٹیوں کے ارکان کی تعداد کو بھی ساتھ لیا جائے تو یہ 175 تک نہیں پہنچتی۔ ہاں، اگربی جے پی-کانگریس کے درمیان اپنا الگ سیاسی راستہ اختیار کرنے والی پارٹیوں کو شامل کرلیں ، تو یہ تعداد یقینی طور پر 225 تک پہنچ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں اور لیڈروں کے اندرونی اختلافات ہی بی جے پی کو مضبوط کرتے ہیں۔ نیز ایک وسیع اپوزیشن اتحاد کے بغیر مودی کی بی جے پی سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ تبدیلی تو دور کی بات ہے۔ ایسے میں رائے پور اجلاس میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے انتخاب یا نامزدگی کے بعد ایک بڑا چیلنج گروپوں کے ذریعہ اقتدار کی جانب نگاہ رکھنے والوں پر لگام لگانا ہوگا۔ اس کے ساتھ اگر اصل ہدف بی جے پی کو بڑا چیلنج دینا ہے۔ اگر اسے چیلنج کرنا ہے تو کانگریس کو ایک وسیع اپوزیشن اتحاد بنانے کے لیے مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی، جس کی پہلی لازمی شرط کے طور پر مرکزی اقتدار میں اپنی واپسی کے خواب کو ترک کرنا ہوگا۔ کانگریس کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ جے رام رمیش نے کوئی نئی بات نہیں کہی کہ کانگریس کے بغیر اپوزیشن اتحاد نہیں بن سکتا۔ یہ بات گزشتہ سال رخ بدلنے کے بعد بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی کہہ چکے ہیں۔مسئلہ کانگریس کی شرکت کا نہیں، قیادت کا ہے، جس کو لے کر غیر کانگریسی جماعتوں کے ذہنوں میں کئی سوالات ہیں، ان کا منطقی جواب دینے سے پہلے، کانگریس کو بھی خود رائے پور اجلاس میں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)