اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کے حق میں علمی و سماجی حلقوں کی حمایت، ویمنز کمیشن سے سمن واپس لینے کا مطالبہ

0

سونپت / نئی دہلی،
اشوکا یونیورسٹی (ہریانہ) کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ اور ممتاز اسکالر پروفیسر علی خان محمودآباد کو ہریانہ اسٹیٹ ویمنز کمیشن کی جانب سے حالیہ سمن جاری کیے جانے کے بعد علمی، سماجی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ پروفیسر موصوف کے حق میں ملک و بیرونِ ملک سے درجنوں دانشوروں، اساتذہ، صحافیوں اور کارکنوں نے ایک مشترکہ حمایت نامہ جاری کرتے ہوئے کمیشن کی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور آزادیٔ اظہار رائے کے خلاف قرار دیا ہے۔

یہ سمن پروفیسر محمودآباد کی اُن سوشل میڈیا پوسٹس کے تناظر میں جاری کیا گیا، جن میں انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی فوج کے حکیمانہ رویے، جنگ کی اخلاقیات، اور میڈیا میں خواتین افسران کی نمائندگی کے حوالے سے تنقیدی تبصرے کیے تھے۔

کمیشن کا الزام ہے کہ ان پوسٹس میں خواتین افسران — کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ — کو “بدنام” کیا گیا، اور ملک کی داخلی سلامتی و امن عامہ کے لیے خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم پروفیسر علی خان نے واضح کیا ہے کہ اُن کی تمام پوسٹس کا مقصد امن و رواداری کا فروغ اور بھارت کی آئینی اقدار کا دفاع تھا، نہ کہ کسی ادارے یا فرد کو نشانہ بنانا۔

پروفیسر کا مؤقف ہے کہ اُن کے جملوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا، جس سے ان کا مفہوم مسخ ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نہ صرف خواتین افسران کی موجودگی کو مثبت علامت قرار دیا بلکہ دائیں بازو کے اُن افراد کی بھی تعریف کی جنہوں نے اس کی حمایت کی۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ یہی عناصر عام مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آواز بلند کریں گے۔

دانشوروں کے حمایت نامے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کو نہ تو پروفیسر کو طلب کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے اور نہ ہی ان کے بیانات میں کوئی غیر قانونی بات پائی جاتی ہے۔ خط میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایسے وقت میں جب ہریانہ خواتین پر مظالم کے معاملے میں بدترین ریاستوں میں شامل ہے، کمیشن اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر فرضی الزامات گھڑ رہا ہے۔

مشترکہ بیان میں ہریانہ ویمنز کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر سمن واپس لے، پروفیسر محمودآباد سے معذرت خواہی کرے، اور اشوکا یونیورسٹی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے استاد کے ساتھ کھل کر اظہارِ یکجہتی کرے۔

خط پر دستخط کرنے والوں میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند، اشوکا یونیورسٹی کی پروفیسر اپرنا ویدک سمیت درجنوں علمی، ادبی اور سماجی شخصیات شامل ہیں۔ اس حمایت مہم کے تحت ایک گوگل فارم کے ذریعے دستخطوں کا سلسلہ جاری ہے جسے 16 مئی شام 5 بجے تک مکمل کیا جائے گا۔

یہ معاملہ ملک میں آزادیٔ اظہار، تعلیمی خودمختاری اور اختلافِ رائے کے احترام جیسے بنیادی اصولوں پر ایک اہم آزمائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور اس پر ردِعمل ملک میں بدلتے ہوئے جمہوری ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS