غیر حاضر وزیر اعظم اور حاضر سوالات

0

جمہوریت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ جوابدہی کو محض نعرہ نہیں‘عمل کا حصہ بناتی ہے۔ مگر جب خود وزیر اعظم ہی اس وقت پارلیمان سے غیر حاضر رہیں جب ملک کے سب سے نازک اور حساس معاملات پر ایوان زیریں و بالا میں بحث ہونی ہو‘تو سوال صرف جمہوریت کے وقار کا نہیں رہ جاتا‘بلکہ لیڈرشپ کی سنجیدگی اور ترجیحات پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی 23 سے 26 جولائی تک برطانیہ اور مالدیپ کے سرکاری دوروں پر ہوں گے‘جبکہ مانسون اجلاس 21 جولائی سے شروع ہو رہا ہے، وہیں اجلاس جس میں حکومت نے ’آپریشن سیندور‘ جیسے نہایت حساس اور بین الاقوامی سطح پر زیر بحث مسئلے پر اپوزیشن کے دبائو میں آکر بحث کی اجازت دی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ جب اپوزیشن حکومت کو قومی سلامتی ‘ خارجہ پالیسی اور عسکری کارروائیوں پر جواب دہ بنانا چاہتی ہے‘تو ملک کا اعلیٰ ترین منتخب نمائندہ غیر حاضر رہنے کا شیڈول پہلے سے ہی بنا چکا ہے۔

پہل گام حملے کے بعد کیا گیا آپریشن سیندور ایک ایسا اقدام ہے جس پر نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ 22 اپریل کو 25 سیاحوں اور ایک مقامی شخص کی دہشت گردانہ حملے میں ہلاکت کے بعد ہندستانی افواج نے پاکستان کی حدود میں عسکری اہداف پر کاری ضرب لگائی اور اسے’جوابی دفاعی کارروائی‘ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد ملکی فضا میں جس شدت سے سیاسی بیانات اور قومی سلامتی کے معاملات پر بحث چلی‘اس کا منطقی نتیجہ یہی تھا کہ وزیر اعظم خود ایوان میں موجود رہ کر تمام سوالات کا سامنا کرتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی ایسی جمہوری مکالمے کی فضا میں اپنے آپ کو لا کر غیر متوقع یا ناگوار سوالات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں؟آج ہوئی کل جماعتی میٹنگ میں اگرچہ پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ حکومت آپریشن سیندور پر بحث کیلئے تیار ہے‘لیکن سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم موجود ہی نہیں ہوں گے تو بحث کا حاصل کیا ہوگا؟ رجیجو نے خود اپوزیشن سے یہ امید بھی ظاہر کی کہ اجلاس کی کارروائی میں کسی قسم کا خلل نہ ہو۔

گویا بحث ہو بھی‘تو اس کی سمت‘اس کا دائرہ اور اس کے نتائج پہلے ہی طے شدہ ہوں گے یعنی سوال ہو‘مگر جواب نہ ہو۔اس اجلاس میں شامل اپوزیشن اتحادانڈیا کی 24 جماعتوں نے جو آٹھ اہم نکات طے کئے‘ان میں پہل گام حملے‘آپریشن سیندور ‘بہار میں ووٹر لسٹوں کی اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR)‘ خارجہ پالیسی اور ڈونالڈ ٹرمپ کے متنازعہ جنگ بندی دعوے شامل تھے۔ ایسے میں اپوزیشن کا یہ تقاضا کہ ان تمام معاملات پر پارلیمان میں سنجیدہ اور براہ راست مکالمہ ہو‘بالکل فطری ہے۔ تاہم حکومت نے بادل نخواستہ صرف ایک نکتہ یعنی آپریشن سیندور پر بحث کی منظوری دی‘جبکہ انتخابی فہرستوں پر ہونے والی مبینہ ہیرا پھیری پر کوئی فیصلہ نہ لے کر واضح کر دیا کہ وہ کن موضوعات پر روشنی ڈالنا چاہتی ہے اور کن پر پردہ ڈالنا۔
کانگریس رہنما پرمود تیواری نے بجاطور پریہ سوال کیاہے کہ جب وزیر اعظم کو معلوم تھا کہ وہ ان تاریخوں میں ملک سے باہر ہوں گے تو اجلاس کیوں بلایا گیا؟

یہ سچائی اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ جو شخص انتخابات کے دوران ہر گلی‘ہر اسٹیج‘ہر چینل پر دکھائی دیتا ہے‘وہی شخص جب ملک کے حساس معاملات پر جواب دینے کی نوبت آتی ہے تو پردے کے پیچھے چلا جاتا ہے۔یہ رویہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ جمہوری طرز قیادت کے منافی بھی ہے۔ وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں حکومت کی طرف سے بحث میں شرکت کرنے والے وزراء محض نمائشی کردار ادا کریں گے‘جبکہ اصل فکری و اخلاقی قیادت کا سوال تشنہ رہے گا۔ اس سیشن کو اس لئے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ یہ پہلا اجلاس ہے جس کے بعد جسٹس ورما کو ہٹانے کی تحریک کو 100 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے اور ساتھ ہی اپوزیشن نے عدالتی غیر جانبداری‘کسانوں کے مسائل‘پنجاب میں مبینہ زمین ہتھیانے کے واقعات اور خواتین پر مظالم جیسے مسائل کو بھی ایجنڈے میں شامل رکھا ہے۔ایسے میں یہ سوال بار بار ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا وزیر اعظم خود کو عوامی نمائندوں کے سوالات کیلئے دستیاب سمجھتے ہیں یا ان کی قیادت اب صرف تصویری مواقع‘عالمی دوروں اور انتخابی ریلیوں تک محدود ہو چکی ہے؟

جمہوریت کی روح سوال اور جواب کے درمیان امانت دارانہ رشتہ ہے۔ اگر وزیر اعظم خود اس رشتے کو غیر حاضر رہ کر توڑ رہے ہیں‘تو پھر باقی حکومت کی موجودگی محض رسمی کارروائی ہے۔ آپریشن سیندور محض ایک عسکری مہم نہیں‘بلکہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ صرف میدان جنگ سے نہیں بلکہ پارلیمان میں دیئے گئے جوابات سے ہوگا۔ اور جب وہی جواب دینے والا غیر حاضر ہو تو یہ کارروائی خود ایک سوال بن جاتی ہے ‘ایسا سوال جس کا جواب ایوان نہیں‘تاریخ دے گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS