اسقاط حمل اور خواتین کے حقوق

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

سپریم کورٹ نے ہندوستان کی خواتین کے حقوق کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس نے اپنے تازہ ترین فیصلہ میں سبھی خواتین کو اسقاط حمل کا حق دے دیا ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ ہندوستان کے روایتی قانون میں صرف شادی شدہ خواتین کو ہی اسقاط حمل کا حق حاصل تھا۔ وہ حمل ٹھہرنے کے20سے 24 ہفتوں میں اسقاط حمل کروا سکتی تھیں، لیکن ایسی خواتین جو غیر شادی شدہ ہوں اور جن کی عصمت دری ہوئی ہو یا جو دانستہ یا غیر ارادی طور پر حاملہ ہو گئی ہوں، انہیں اسقاط حمل کا حق اب تک حاصل نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا رہا؟ ایسی خواتین یا تو خودکشی کر لیتی ہیں یا گھر میں ہی کسی طریقے سے اسقاط حمل کی کوشش کرتی ہیں یا نیم حکیموں اور ڈاکٹروں کو پیسے کھلا کر خفیہ طور پر حمل ضائع کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان ہی اقدامات کی وجہ سے ہندوستان میں ہر روز8فیصد حاملہ خواتین کی موت ہوجاتی ہے۔ تقریباً70فیصد اسقاط حمل اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ جو خواتین بچ جاتی ہیں، وہ ایسے اسقاط حمل کی وجہ سے شرمندگی اور بیماریوں کی شکار ہوجاتی ہیں۔
ہندوستان میں اسقاط حمل سے متعلق جو قانون1971 میں اورترمیم شدہ قانون 2021 میں بنا، اس میں غیر شادی شدہ خواتین کے اسقاط حمل کو غیر قانونی یا جرم قرار دیا گیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے ایک ایسی ہی خاتون کے کیس پر غور کرتے ہوئے تمام خواتین کو اسقاط حمل کی آزادی دے دی ہے۔ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ اب اس حکم پر عمل درآمد کے لیے قانون بنائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کے ریپ کی وجہ سے حاملہ ہوئی ہے تو اسے بھی اسقاط حمل کی اجازت دینی چاہیے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بھی غیر شادی شدہ عورت حاملہ ہوتی ہے، وہ زنا کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسقاط حمل کے لیے دیگر کئی لازمی وجوہات بھی بن جاتی ہیں۔
ان سب پر غور کرتے ہوئے عدالت کا مذکورہ فیصلہ کافی درست لگتا ہے لیکن خدشہ یہی ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں زنا اور عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے جیسا کہ یوروپ اور امریکہ میں ہوتا ہے۔ دنیا کے67ممالک میں اسقاط حمل کی اجازت سبھی خواتین کو ہے۔ کچھ ممالک میں اسقاط حمل کروانے سے پہلے اس کی وجہ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ کیتھولک عیسائی اور مسلم ممالک میں عام طور پر اسقاط حمل کے تئیں ان کا رویہ سخت ہوتا ہے، لیکن سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک میں اس کی محدود اجازت ہے۔ دنیا کے24ممالک میں آج بھی اسقاط حمل کو جرم ہی سمجھا جاتا ہے۔
ہندوستان میں اسقاط حمل کی اجازت کو وسیع کرکے سپریم کورٹ نے خواتین کی آزادی کو آگے بڑھایا ہے، لیکن طلاق کے پیچیدہ قانون میں بھی فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔طلاق کی طویل قانونی چارہ جوئی اور اخراجات سے بھی لوگوں کو نجات ملنی چاہیے۔ اس تعلق سے پارلیمنٹ کوئی پہل کرے تو وہ بہتر ہوگا۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS