عبدالسلام عاصم: کثرت میں وحدت کی عملی بحالی وقت کا تقاضہ

0

عبدالسلام عاصم

وزیراعظم نے 26 دسمبر کو اولین ویر بال دیوس منایا۔ یہ تاریخ کا بھلایا ہوا باب تو نہیں لیکن اسے تاریخ کے دوسرے واقعات کی طرح کبھی بڑے پیمانے پر اجاگر نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے احساسات کا سفر بھی قومی سفر کا حصہ ہوتا ہے۔ آج ہم اسی کے تازہ موڑ سے گزر رہے ہیں۔ یہ شکایت بلا شبہ اس تکلیف دہ احساس کا حصہ ہے کہ ہماری تاریخ میں زیادہ تر ایسے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں ہم تذکرے میں تو ہیں لیکن فوکس کسی اور پر ہے۔
کثرت میں وحدت کے سچ سے انکار کرنے والی تقسیم کے صدمے کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کے سفر کی کہانی متوازن رکھنے کی ضرورت تھی۔ کل کے ذمہ داران اس میں ایک حد تک ناکام رہے۔ ضروری نہیں کہ اس ناکامی میں کسی بدنیتی کا دخل ہو۔ باوجودیکہ نیک نیتی سے کیے جانے والے کام سے بھی اگر سبھی مطمئن نہیں تو اُس کام کو بے نقص نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ آگے چل کر اس طرح کا ایک عدم توازن دوسرا عدم توازن سامنے لاتا ہے جس کا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بعض مجاہدین آزادی کے نام غائب ہونے لگے ہیں۔ عجب نہیں کہ کبھی اُن غائب ناموں کی بحالی سے بھی ہماری کوئی نسلِ آئندہ گزرے۔ اگراُس نسل نے بھی اصلاح کے بجائے صرف توازن بدلنے سے کام لیا اور ہمارے موجودہ ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تو کیا قومی اور ثقافتی ترقی کے سفر میں ہم نسل در نسل وہیل چیئر کے کھیل کی طرح ایک ہی جگہ جامد ہو کر رہ جائیں گے!
وطن عزیز کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی تک کا ہمارا سفر بظاہر بس ایک دوسرے کو مسترد کرنے تک ہی محدود نظر آتا ہے۔ اگر بباطن ایسا نہیں ہے تو حکمراں اور اپوزیشن دونوں حلقے کے عصری، سیاسی اور سماجی ذمہ داران کو انتہائی وسیع القلبی سے کام لینا چاہیے۔ نفرت کا بازار لگانے یا اُس میں محبت کی دکان کھولنے کے بالترتیب الزام اور دعوے کے سوا بھی کئی کام ہیں جو ادھورے پڑے ہیں۔ انہی میں سے ایک کام کثرت میں وحدت کی عملی بحالی کا ہے۔ یہ کام حکومت اور اپوزیشن کے قوم رُخی اشتراک کے بغیر ناممکن ہے۔ تو پھر کیوں نہ ویر بال دیوس کو ہی اس سلسلے کا نقطہ آغاز بنایا جائے۔ قوم کو از سر نو بتایا جائے کہ متحدہ ہندوستان پر حملے کرنے اور اسے غلام بنانے والے ہی اپنے پیچھے اپنے اعمال کی تاریخ نہیں چھوڑ گئے۔ تاریخ کا بنیادی حصہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے حملوں کا مقابلہ کیا، تاب لانے میں کامیاب رہے، جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور پھر ایک دن غلامی کی زنجیر توڑ ڈالی۔ ان سورماؤں میں ہندو، مسلم، سکھ اور دوسرے سبھی شامل تھے۔
ہندوستان کی تاریخ بلاشبہ ہماری اپنی تاریخ ہے۔ یہ تاریخ ہندوازم، اسلام یا مسیحیت کی تاریخ نہیں۔ اس ملک پر حملے بھی ہوئے ہیں اور اسے برطانیہ کی کالونی بھی بنایا گیا۔ ہر ظالم اور مظلوم کسی نہ کسی مذہب، عقیدے یا ازم سے تعلق رکھتا ہے لیکن زیادتی میں بنیادی کردار ان لوگوں / حلقوں کا ہوتا ہے جو وسیع المشرب معاشرے میں غیر صحتمند رجحان کے ساتھ محدود مفادات کے حامل ہوتے ہیں۔ ہم پر کبھی کسی مذہب نے حملہ نہیں کیا، البتہ ہمارے مذاہب حملوں کی زد میں ضرور آئے ہیں۔ سومنات سے اجودھیا تک کی کہانیاں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن جو اذیتیں پہنچی ہیں وہ ایک جیسی ہیں۔ انسانوں پر انسانوں کے ظلم کی کہانی پر دنیا کے کسی ایک ملک یا خطے کا اجارہ نہیں۔ دنیا کی ہزار سالہ پرانی تاریخ بھیانک ظلم و ستم کے ابواب سے بھری پڑی ہے۔ ہندوستان بھی ظلم و ستم کے پرتشدد واقعات سے گزرتا آیا ہے۔ وطن عزیز کے ساتھ زیادتیوں کی جو تاریخ ہے، اس کا اگر بے لاگ مطالعہ کیا جائے توحربی اور تجارتی حملوں کا مقابلہ کرنے میں ہمارے سورماؤں کا جو کردار رہا وہ تاریخ کے اوراق کا اہم حصہ ہے۔
ویر بال دیوس کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے بجا طور پر یاد دلایا کہ چمکور اور سرہند کی جنگوں میں جو کچھ ہوا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعات تین صدیاں قبل ہماری سرزمین پر پیش آئے تھے۔ ایک طرف مغل حملہ آور تھے تو دوسری طرف ہندوستان کے قدیم اصولوں کے مطابق علم کی روشنی تھی اور زندگی کو احسن طور پر گزارنے والے ہمارے اتالیق تھے۔ ایک جانب خوف، دہشت اور وحشت تھی تو دوسری طرف انسانوں میں خدا کو دیکھنے کی روحانیت اور رحمدلی کی انتہا۔ مغلوں کے پاس جہاں لاکھوں کی تعداد میں فوج تھی وہیں گرو گووند سنگھ کے ویر صاحبزادوں بابا زور آور سنگھ اور بابا فتح سنگھ کے پاس ان کی اپنی ہمت و شجاعت تھی۔ وہ اپنے پاس بڑی افرادی قوت نہ رکھتے ہوئے بھی کسی کے سامنے نہیں جھکے۔ یہاں تک کہ طاقت کے نشے میں اخلاقی طور پر دیوالیہ حملہ آوروں نے انہیں زندگی بھر کیلئے پسِ زنداں دھکیل دیا تھا۔ یہ ان کی شجاعت تھی جو صدیوں سے ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
موجودہ حکومت کا استدلال ہے کہ نیا ہندوستان اپنی کھوئی ہوئی میراث کو بحال کرکے گزشتہ دہائیوں کی غلطیوں کو درست کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ کتنا صحیح اور کتنا متنازع ہے، اسے دیکھنے اور سمجھنے کا عمل محض ردو قبول سے گزرنے کا متقاضی نہیں۔ عصری ہندوستان کو کثرت میں وحدت کی جنت کے طور پر دیکھنے کے ہر خواہش مند کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ اس ادراک سے کام لینا چاہیے کہ آیا جو ہوتا آیا ہے وہ درست تھا! اور کیا جو ہورہا ہے اس سے کسی نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے!! صرف استرداد کا حق استعمال کرنا تو بہت آسان ہے۔ اقوام متحدہ کے مستقل اراکین اکثر ایک دوسرے کے خلاف اس کا استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا یہ عمل کسی انقلاب کا سبب نہیں بنتا۔ اس اختیارِ تمیزی کے استعمال سے کوئی ایسا انقلاب نہیں آیا جس نے اندیشوں سے نجات دلاکر امکانات کے در وا کیے ہوں۔ تبدیلی برائے تبدیلی کے تو ڈھیروں واقعات ہمارے اور آپ کے سامنے ہیں۔ کیا ان میں سے کسی کو انقلاب کا نام دیا جا سکتا ہے! نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک غیر متوازن منظر نامہ دوسرے متوازن منظرنامے سے ہی بہتری کے رخ پر بدلا جا سکتا ہے۔ ایسی تبدیلی میں جب کسی قوم کی بنیادی اقدار تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں تو گزرتے وقت کے ساتھ قوم کا مستقبل بدلتا نظر آنے لگتا ہے۔ ایسے انقلاب کیلئے ضروری ہے کہ ماضی کی فروگزاشتوں کی ایماندارانہ اور مخلصانہ اصلاح ہو۔
بے شک ہندوستان کی زائد از ایک صدی کی تاریخ آج بھی ہماری روایات اور ثقافت میں محفوظ ہے۔ ہمیں اُن سے نہایت ایمانداری سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اس ملک کے لوگوں کی جداگانہ مذہبی شناخت ہی ان کی روایات اور ثقافت کی اساس ہے۔ اس سے انکار کر کے کسی ایک رنگ کو اختیار کرنے کی کوشش ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے مترادف ہو گی۔ کثرت میں وحدت سے انکار نے ہی اس ملک کو دولخت کیا تھا۔ ہم اب اورایسی کسی غلطی کے قطعی متحمل نہیں۔ اس ملک کی تاریخ من گھڑت ہرگز نہیں جیسا کہ بعض حلقوں میں تاثر دیا جاتا ہے۔ البتہ ایسا ضرور ہوا ہے کہ کچھ جیالوں اور بہادرمجاہدین کے نام اور ان کے کارنامے کسی تساہل یا غفلت کے نتیجے میں واضح طور پر نئی نسل کے سامنے نہیں آئے۔ ملک کے مختلف خطوں کی روایات اور ثقافت میں موجود ان تذکروں کو عصری تکنیک اور برقی آلات کی مدد سے سامنے لانے میں ہر حلقے کو اشتراک عمل سے کام لینا چاہیے تاکہ ہماری تاریخ کے وہ روشن اوراق دنیا کے سامنے آئیں اور اس حوالے سے ہم اپنی نئی نسل کے ساتھ ساتھ دوسروں کیلئے بھی رول ماڈل بن سکیں۔
ہندوستان کی جنگ آزادی میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے مثالی قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں ایک دوسرے کو جدا کرنے کیلئے نہیں جوڑنے کیلئے تھیں۔ انہی قربانیوں کی وجہ سے ایک ہمسائے کی تمام تر بد نگاہی کے باوجود آج تک ہم کثرت میں وحدت کی پہچان کو بچائے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ذمہ داران اپنے ملک کے لیے یہ جذبہ ہم سے کشید کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قوم کی نئی نسل سیکھنے اور تحریک حاصل کرنے کے لیے ایک رول ماڈل کی تلاش میں رہتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ کردار کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے فکر و عمل کو جلا بخشنے تک محدود ہو۔ ہندوستان میں بھگوان رام، گرونانک اور خواجہ معین الدین کے ’’نظریات برائے عمل‘‘ کسی ایک فرقے تک محدود نہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS