عبدالماجد نظامی: ہلدوانی معاملہ کا حل انسانی پہلوؤں کو دھیان میں رکھ کر نکالنا چاہیے

0

عبدالماجد نظامی

ریاست اتراکھنڈ میں واقع ہلدوانی کا علاقہ گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا میں چھایا رہا کیونکہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عمل ہو جاتا تو چار ہزار سے زیادہ خاندان کے تقریباً پچاس ہزار افراد بری طرح متاثر ہوتے اور انہیں کئی قسم کے سماجی، سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی مسائل سے گزرنا پڑتا۔ اس مسئلہ کو لے کر اس علاقہ کے لوگ جہاں ایک طرف جمہوری ڈھنگ سے جگہ بہ جگہ احتجاج کر رہے تھے اور انہیں درپیش مشکلات کی جانب ملک کے عوام کی توجہ مبذول کرا رہے تھے وہیں دوسری جانب وہ قانونی چارہ جوئی کرکے اپنی پریشانیوں کا حل ڈھونڈنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ اسی سلسلہ میں ہلدوانی کے متوقع طور پر متاثر ہونے والے خاندانوں نے سپریم کورٹ میں اپنے معاملہ کو پیش کیا تھا تاکہ اس کا مناسب حل مل سکے۔ سپریم کورٹ نے انہیں مایوس نہیں کیا اور ان کے گھروں اور جائیدادوں پر متوقع انہدامی کارروائی کو وقتی طور پر روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریلوے اور اتراکھنڈ سرکار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ کوئی قابل عمل انتظام کرنا ضروری ہے۔ موقر ججوں نے اپنے فیصلہ میں اس بات پر زور دیا کہ جہاں ایک طرف ریلوے کی ضرورتوں کو دھیان میں رکھا جانا چاہیے، وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ جو لوگ متاثر ہوسکتے ہیں ان کی باز آبادکاری کا بھی انتظام کیا جائے۔ جسٹس ایس کے کول اور جسٹس اے ایس اوکا نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن کی سماعت کے بعد کہا کہ اصل نقطہ جس کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ کیا مکمل زمین ریلوے کی ہے یا اس کے بعض حصہ پر ریاست کی سرکار کا بھی دعویٰ ہے؟ اس کے علاوہ ان زمینوں پر جن لوگوں کا قبضہ ہے ان کا بھی دعویٰ ہے، وہ ان پر اپنا حق رکھتے ہیں خواہ بطور کرایہ دار وہ اس پر حق رکھتے ہوں یا نیلامی میں ان زمینوں کو انہوں نے خریدا ہو۔ ان پہلوؤں کو دھیان میں رکھا جانا چاہیے کیونکہ پچاس ہزار لوگوں کو یکلخت ایک ہفتہ میں اجاڑا نہیں جانا چاہیے۔ جج صاحبان نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی قابل عمل انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ ان زمینوں پر جن کا حق نہیں ہے، ان کو الگ کیا جائے اور انہیں ہٹایا جائے۔ لیکن باز آبادکاری کی جو موجودہ اسکیمیں ہیں ان کے تحت متاثرین کے بسانے کا انتظام کیا جائے ساتھ ہی ریلوے کی ضرورتوں کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ متنازع زمین پر مزید کسی تعمیری کام کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس فیصلہ میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس پورے معاملہ کے انسانی پہلو پر بطور خاص زور دیتے ہوئے کہا کہ اس میں انسانی پہلو شامل ہے۔ لوگ ساٹھ ستر برسوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض لوگوں کا ناجائز قبضہ بھی ہو لیکن سب کو ایک ہی رنگ میں رنگ دینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ اس کا کوئی نہ کوئی مناسب حل نکالنا ضروری ہے۔ انہوں نے فورس اور قوت کے استعمال کے بجائے ہم آہنگی کے ماحول میں پورے مسئلہ کا حل نکالنے کی صلاح بھی دی۔ جس ڈھنگ سے اتراکھنڈ کے لوگوں میں بے چینی کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، اس کے پیش نظر اس سے بہتر مشورہ بھلا اور کیا ہوسکتا تھا۔ آخر انسانی زندگیوں کو اس بے رحم موسم میں ٹھٹھرنے کے لیے کیسے چھوڑا جا سکتا تھا؟ یہ ضروری تھا کہ قانون کی ایسی تشریح پیش کی جائے جس کی روشنی میں ایک ایسا راستہ نکل سکے جس میں کسی کا نقصان نہ ہو۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ میں یہی انسانی پہلو مفقود تھا جس کو سپریم کورٹ نے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کر دیا ہے۔ ملک کے باقی حصوں میں بھی جہاں ایسے مسائل پیش آتے ہیں، وہاں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ انسانی زندگیوں کو بکھرنے سے بچایا جائے اور ان کے مستقبل کو داؤ پر نہ لگایا جائے کیونکہ زمین کا خریدنا یا گھر بنانا، اپنے اہل و عیال کی پرورش کرنا، انہیں بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ایسے میں انہیں اچانک سے بے گھر کر دینا اور ان گھروں اور محلوں میں برسوں کے سفرِ حیات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تمناؤں اور خوشی و غم کے لمحات کو قانون کے بے رحم ہاتھوں سے مسمار کردینا اور ان کی باز آبادکاری کا کوئی پلان تیار نہ کرنا ایک قسم کی سنگ دلی ہے جس کا متحمل ہندوستان جیسا جذباتی سماج نہیں ہو سکتا۔ کہنے کو تو یہ متنازع علاقہ محض2.2کلو میٹر کی زمینی پٹی پر پھیلا ہوا ہے جس میں غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر کی جھگیاں اور بستیاں آباد ہیں اور ہلدوانی کے بن پھول پورہ علاقہ میں واقع ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چار ہزار سے زیادہ خاندان وہاں آباد ہیں جن کے لیے خود سرکار نے بہت سی سہولیات مہیا کروائی ہوئی ہیں۔ ان سہولیات میں خاص طور سے تین سرکاری اسکول، گیارہ منظور شدہ پرائیویٹ اسکول، ایک سرکاری ہیلتھ سینٹر شامل ہیں، ان کے علاوہ ایک مندر، دس مساجد اور بارہ مدرسے بھی وہاں قائم ہیں۔ ان سب کی باز آبادکاری کا انتظام کیے بغیر صرف قوت کے استعمال سے انہیں بے گھر کر دینا قطعاً درست نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ ہلدوانی کا یہ معاملہ پہلی بار2013میں سامنے آیا تھا جب روی شنکر جوشی نامی ایک شخص نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہلدوانی ریلوے اسٹیشن سے متصل بہنے والی گولا ندی میں ناجائز ڈھنگ سے ریت نکالنے کا کام کیا جاتا ہے۔ دورانِ سماعت یہ دعویٰ بھی کر دیا گیا کہ ریلوے لائن کے قریب بسنے والے کچھ لوگ بھی ریت نکالنے کے اس ناجائز کام میں ملوث ہیں اور اس طرح سے ریلوے کو اس مقدمہ کا حصہ بنا دیا گیا۔ ہائی کورٹ نے2016میں اس زمین کو خالی کروانے کا حکم صادر کر دیا۔ لہٰذا اس علاقہ میں بسنے والے لوگوں نے اپنا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچایا جس کے بعد 2017میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے کہا کہ وہ اس علاقہ کے لوگوں کی بات کو بھی زیر سماعت لائے۔ بالآخر معاملہ دسمبر2022تک پہنچا اور ہائی کورٹ نے دوبارہ اس زمین کو خالی کروانے کا حکم دے دیا۔ ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا کہ ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے اب تک ان زمینوں پر ناجائز قبضہ نہیں ہٹایا جا سکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حکم جاری کر دیا کہ ایک ہفتہ کے اندر قوت کے استعمال کے ذریعہ زمین کو خالی کروا لیا جائے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے اس علاقہ میں بسنے والوں کے درمیان بے چینی پھیل گئی اور انہوں نے احتجاج کرکے بتایا کہ وہ بے گھر ہوجائیں گے۔ قانونی سطح پر ہلدوانی کے متوقع طور پر متاثر ہونے والے لوگوں اور ریلوے دونوں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمینیں ان کی ہیں اور دونوں کے پاس اپنے اپنے ثبوت بھی ہیں۔ یہ معاملہ اپنے انجام کو کیسے پہنچے گا، یہ کہہ پانا ابھی تو مشکل ہے کیونکہ اس کی اگلی سماعت سپریم کورٹ میں7فروری کو ہوگی۔ البتہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اتراکھنڈ کی موجودہ سرکار فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کو اپناکر اقلیتی طبقہ کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کے مشورہ کو دھیان میں رکھ کر انسانی قدروں کو پروان چڑھائے اور ایسا حل تلاش کرے جس سے مسئلہ خیر و خوبی سے نمٹ جائے اور کسی کو بیجا دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہی ہندوستانی سماج کا عمومی مزاج رہا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS