عبدالماجد نظامی: نئے سال کا استقبال اور آرزوؤں کی فہرست

0

عبدالماجد نظامی

ہر سال جب بارہ مہینے گزر جاتے ہیں تو پھر سے نئی گنتی شروع ہوتی ہے۔ وہی ایک دو تین کی گنتی جسے ہم نیا سال کہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس میں صرف ایک تاریخ کی تبدیلی ہوتی ہے جو بادی النظر میں بالکل معمولی ہوتی ہے لیکن اس تبدیلی کو پوری دنیا جشن کے طور پر جب مناتی ہے تو اہمیت اور معنویت میں کئی گُنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ دن اور تاریخ کی یہ ادنیٰ تبدیلی اور اس کے نتیجہ میں عالمی برادری کا اجتماعی جشن یہ بتاتا ہے کہ ہماری تمنائیں اور آرزوئیں بحیثیت انسان بالکل یکساں ہیں۔ ہم کہنے کو تو الگ براعظموں میں بٹے ہوئے ہیں، مختلف انواع و اقسام کی غذاؤں اور فضاؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، موسموں کے بدلنے، الگ الگ زبانوں اور تہذیبوں کی رنگا رنگی کو برتتے ہیں، مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد و اشخاص کی معیت کے گوناگوں اثرات سے متاثر ہوکر ہماری شخصیت کا رنگ و روپ تیار ہوتا ہے لیکن ان تمام تنوعات و اختلافات کے باوجود بحیثیت انسان ہماری بنیادی تمنائیں نہیں بدلتی ہیں۔ وہ تمنائیں یہ ہیں کہ ہم جس کر ۂ ارض پر جی رہے ہیں وہ قدرتی آفات و مصائب سے محفوظ رہے، ملک کا نظام اس دستور کے مطابق چلے جس کے تحت اجتماعی طور پر یہ طے کیا گیا ہے کہ ہر شخص کو برابری اور مساوات کا حق ملے اور اس کے ساتھ ظلم وناانصافی نہ ہو، معاشرہ کی ترقی کے لیے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آپسی انتشار کو ختم کرکے ایک متحد اور مضبوط سماج کی تشکیل ہو۔ خواتین کو بھی وہی حقوق اور مراعات مہیا ہوں جو مردوں کو حاصل ہوتے ہیں اور جیسا کہ دستور نے اس بات کو یقینی بنانے کا عزم اول دن سے کیا ہے۔ مختصر طور پر یہ وہ آرزوئیں ہیں جو میں بطور صحافی اپنے دل میں رکھتا ہوں۔ ہر شخص کی اپنی ایک الگ فہرست ہوگی جو وہ اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ کی فلاح و بہبودی کے لیے تیار کرے گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں پہلے سے کہیں زیادہ آج یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس نئے سال کے موقع پر جب تمناؤں یا عزائم کی ایک فہرست تیار کی جائے تو ہر شخص اپنے عزائم کی فہرست میں اس بات کو بھی شامل کرے کہ وہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے اپنی شخصی سطح پر جو کچھ کر سکتا ہے، وہ ضرور کرے گا۔ خواہ ایک پودا لگاکر کریں یا اپنے گاؤں اور بستی میں چھوٹی چھوٹی ندیوں کو سوکھنے سے بچانے کے انتظامات سے کریں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم جس زمین پر رہتے ہیں اور اس کی بے شمار نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس کی حفاظت کا بھی انتظام ہم کریں ورنہ اس کے بڑے سنگین نتائج ہمیں دیکھنے کو ملیں گے جیسا کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں نظر آتے ہیں۔ خود ہمارے پڑوسی ممالک پاکستان، مالدیپ اور بنگلہ دیش وغیرہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور جانی و مالی نقصانات سے دو چار ہو رہے ہیں۔ ہمارا اپنا ملک بھی درجۂ حرارت میں تیزی، بے موسم برسات اور قحط جیسے حالات سے وقتاً فوقتاً جوجھتا رہتا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم قدرت کے قریب ہو کر رہیں اور قدرتی وسائل کے تحفظ کو اپنا مشن بنائیں۔ زندگی میں سادگی ہو اور فضول خرچی سے خود کو بچائیں کیونکہ جب ہم غیر ضروری شاپنگ کرتے ہیں یا کاروں اور بائیکوں کی بارات نکالتے ہیں یا فیشن کے ڈیزائنوں سے اپنے گھروں کو سجاتے ہیں تو ہم اس کرۂ ارض کے محدود وسائل کا بیجا استعمال کر رہے ہیں۔ کبھی پلاسٹک کے استعمال سے ماحول کو متاثر کرتے ہیں تو کبھی کپڑے اور جوتے بنانے کے لیے جن موادوں کا استعمال کرتے ہیں، ان سے قدرتی وسائل پر اثر پڑتا ہے تو کبھی گاڑیوں کی بہتات سے ماحول میں آلودگی پیدا ہوجاتی ہے۔ زندگیاں متاثر ہوتی اور بچوں اور بوڑھوں کے پھیپھڑے مسموم ہواؤں سے بھر جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں درد ناک اور اذیت ناک موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ کے علاوہ ایک دوسرا تعفن ہے جو ہمارے سماج کو کھوکھلا کر رہا ہے اور وہ ہے نفرت آمیز بیانات کا سیلاب۔ ہندوستانی سیاست اور معاشرہ کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اس کو نفرت انگیز اور غیر ذمہ دارانہ سیاسی بیانات سے بچایا جائے اور سماجی و سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک صحت مند ڈائیلاگ کا ماحول تیار کیا جائے۔ جو سیاسی لیڈران اپنی وقتی کامیابی اور حصولِ اقتدار کے لیے اس قسم کی حرکتوں میں مبتلا ہوتے ہیں، انہیں بالکل اندازہ نہیں ہے، وہ نوجوان نسل کے دماغ میں نفرت کا بارود بو رہے ہیں جو ایک دن اس گلشن کو برباد کر دے گا۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ علامہ اقبالؔ کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعاء۔۔۔‘ جس میں اعلیٰ انسانی قدروں کو فروغ دینے کی تعلیم دی گئی ہے، اس کو جرم کے دائرہ میں شامل کرکے اس پر ٹیچروں کو سزا دی جائے۔ اسی طرح رنگوں پر کسی مذہب کی مہر لگا کر اس کو مذہبی منافرت کے لیے استعمال کیا جائے اور آرٹ اور کلچر کا گلا گھونٹنے کے لیے اس کا چھڑکاؤ کیا جائے۔ آج کے ہندوستانی معاشرہ کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے ایک متحد اور مستحکم ملک بنانے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ قانون کے غلط بلکہ غیر انسانی استعمال کے ذریعہ گھروں کو بلڈوزروں سے تہس نہس کر دینا، ہندوستانی شہریوں کے طرز معاش پر یلغار کرنا اور کمزور طبقات کو ترقی کے مواقع فراہم کرانے کے بجائے انہیں سماج کے حاشیہ پر ڈالنا ملک سے محبت کی علامت نہیں ہو سکتی۔ ایسے مشکل حالات میں جو لوگ اس ملک کو محبت و رواداری کے دھاگوں سے باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا ہاتھ مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اس ملک کو محبت و ہمدردی اور انسانیت نوازی جیسی اعلیٰ قدروں سے جوڑ کر نہیں رکھا گیا تو اس کی روح مرجائے گی اور یہ ملک ناقابل تحمل بن کر رہ جائے گا۔ ہر شخص کو قانون کے دائرہ میں عقیدہ و فکر کی آزادی دی جائے اور علم و ہنر کو پروان چڑھانے والے اداروں کی تعمیر اور اس کے لیے مطلوب ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ وقتی اور طویل مدتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس بہتر صلاحیتیں اور قابل افراد کی کھیپ ضرورت کے وقت مہیا رہے۔ معیاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا قیام ضروری ہے تاکہ سائنٹفک اصولوں پر مسائل کو سمجھا جائے اور بیماروں کا علاج کیا جائے۔ ابھی کورونا کا دور پھر سے شروع ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کے پیش نظر حکومت اور شہری ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں مطلوب ڈھنگ سے کام کریں اور جان و مال کی حفاظت کے لیے اپنا تعاون پیش کریں۔ ذرا سی لاپروائی بڑے بھیانک انجام سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ فہرست مکمل نہیں ہے اور نہ ہی ایک مکمل فہرست پیش کرنا مقصود ہے۔ بنیادی طور پر بس اس جانب توجہ مبذول کروانا ہے کہ اگر ہم واقعی پرسکون اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو صرف اپنی ذات پر توجہ نہ دیں بلکہ اپنے گرد و پیش کا اتنا ہی خیال رکھیں جتنا آپ اپنا رکھتے ہیں کیونکہ ہماری خوشیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں خواہ اس کا تعلق ماحولیات سے ہو یا پھر اپنے جیسے انسان سے ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسا ہندوستان بنانے میں کامیاب ہوجائیں جہاں کسی دل میں خوف اور کسی جذبہ میں جھجھک نہ ہو۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے دل نفرت کے جذبات سے خالی اور انسانیت نوازی کے اصولوں سے معمور ہوں۔ تمام اہل وطن کو نئے سال کی بے شمار خوشیاں نصیب ہوں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS