عبدالماجد نظامی: جاسنڈا آرڈرن کی قیادت نے دنیا کو سیاست کا نیا مفہوم عطا کیا

0

عبدالماجد نظامی

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے جمعرات کے روز یہ اعلان کرکے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا کہ اب وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر برقرار رہنے کی رغبت نہیں رکھتی ہیں اور فروری کے مہینہ میں وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہو جائیں گی۔ ان کا یہ فیصلہ جتنا نیوزی لینڈ کے شہریوں کے لئے تعجب خیز تھا اتنا ہی پوری دنیا میں آرڈرن کے مداحوں کے لئے حیرت زدہ کر دینے والا تھا کیونکہ ابھی ان کی عمر صرف 42 سال ہے اور نیوزی لینڈ میں وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے لئے لیڈران کا جو سروے حال ہی میں کیا گیا ہے اس میں بھی جاسنڈا آرڈرن فہرست میں سب سے اوپر ہیں اور ان کے مداحوں اور پسند کرنے والوں میں کوئی بڑی گراوٹ نہیں آئی ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ اکتوبر 2023 میں جو عام انتخابات نیوزی لینڈ میں منعقد ہوں گے ان میں وہ اپنی سیاسی جماعت ’نیوزی لینڈ لیبر پارٹی‘ کو قیادت فراہم کرتے ہوئے تیسری بار اس عہدہ کو سنبھالنے کے لئے منتخب کر لی جائیں گی۔ لیکن انہوں نے نہ صرف یہ اعلان کر دیا کہ وہ اپنے عہدہ کو چھوڑ رہی ہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ عام انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونے کے لئے اپنی امیدواری بھی پیش نہیں کرنا چاہتی ہیں کیونکہ اب ان کے خزانہ میں اپنے ملک کی قیادت کے لئے مزید رغبت باقی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ بطور وزیر اعظم گزشتہ ساڑھے پانچ برس بڑی مشکلات سے پْر رہے ہیں اور چونکہ وہ بھی ایک انسان ہی ہیں اس لئے وہ سمجھتی ہیں کہ اب اس عہدہ سے الگ ہو جانا چاہئے۔ انہوں نے اپنے اندرون میں چل رہی کشمکش پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا کہ اس موسم گرما میں میں نے بڑی کوشش کی تھی کہ مزید ایک سال کے لئے ہی سہی بلکہ وزارت عظمیٰ کی اگلی مدت کے لئے میں خود کو تیار کرلوں گی یا کوئی راستہ نکل آئے گا اور باوجودیکہ وہ جانتی ہیں کہ اس برس کا تقاضہ یہی تھا کہ وہ خود کو اس کے لئے تیار کر لیں لیکن وہ ایسا نہیں کر پائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں جانتی ہوں اس کے بعد بڑی بحث چلے گی کہ آخر اس عہدہ سے خود کو دور کر لینے کے حقیقی اسباب کیا تھے لیکن سچائی صرف یہی سامنے آئے گی کہ چھہ برسوں تک بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنے کے بعد یہی محسوس ہوا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ سیاست داں بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ ہم سے جو کچھ بن پڑتا ہے ہم وہ کرتے ہیں اور اپنی پوری استطاعت استعمال کرتے ہیں لیکن ایک مرحلہ آتا ہے جہاں لگتا ہے کہ اب الوداع کہہ دینا چاہئے۔ میرے لئے وہ وقت آ گیا ہے۔ لیکن کیا جاسنڈا آرڈرن موجودہ عہد کے عام سیاست دانوں کی مانند رہی ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ان کی سیاسی زندگی دنیا بھر کے تمام سیاست دانوں کے لئے درس عبرت بنی رہی ہے۔ انہوں نے ایسے وقت میں اپنے ملک کی باگ ڈور کو سنبھالا تھا جب امریکہ سے یوروپ اور ایشیا تک میں ایسے لیڈران منتخب ہو کر آ رہے تھے جن پر فسطائی نظریات کو بڑھاوا دینے کا ایک جنون سوار تھا اور پوری دنیا میں بے چینی کا ماحول قائم تھا۔ ایسے ہی وقت میں خود ان کے اپنے ملک میں مسلم اقلیت کو ایک عیسائی جنونی نے نشانہ بنالیا۔ یہ واقعہ 2019 میں اس وقت پیش آیا جب مسلمان جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے کرائسٹ چرچ کی مسجد میں اکٹھا ہوئے تھے۔ وہاں جس وقت نمازی عبادت الٰہی میں مشغول تھے اسی وقت یہ مذہبی جنونی گھس آیا اور اپنی بندوق سے ان پر بڑی بے رحمی سے گولیوں کی برسات کر دی جس میں 51 نمازی شہید ہوگئے اور 40 زخمی ہوئے۔ اس واقعہ نے پوری دنیا کو سکتہ میں ڈال دیا تھا لیکن اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اسلاموفوبیا کی جو عام فضا امریکہ و یوروپ میں سیاست دانوں اور مذہبی جنونیوں نے قائم کی تھی اس کا یہ فطری نتیجہ تھا۔ اس ماحول میں جب کہ امریکہ کے اندر مسلمانوں کے داخلہ پر پابندیاں عائد تھیں، فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے اور فرانس میں کبھی حجاب پر پابندی عائد ہو رہی تھی تو کبھی رسول اکرم ؐکی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ جاری تھا تو کبھی ہالینڈ میں قرآن کو جلانے کے لئے وہاں کے بعض سیاسی لیڈران اپنے ہم نواؤں کو اکٹھا کر رہے تھے اور اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دینے والا مغربی میڈیا آگ میں گھی کا کام کر رہا تھا ایسے وقت میں نیوزی لینڈ سے امید افزا ہوا چلی۔ کرائسٹ چرچ کے واقعے کے فورا ًبعد جاسنڈا آرڈرن نے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ مسلم خواتین سے جب تعزیت کی غرض سے ملیں تو عملی طور پر یکجہتی کا اظہار اس انداز میں کیا کہ ان کے سر پر حجاب کی چادر پڑی تھی اور روایتی سیاست دانوں کی طرح کھوکھلے الفاظ کہنے کے بجائے انہوں نے صحیح معنی میں متاثرین کے درد کو محسوس کیا اور ان کی تفصیلات سنتی رہیں۔ جن مسلم خواتین نے اپنے شوہر یا دیگر رشتہ داروں کو کھویا تھا انہیں گلے لگایا اور ان کے آنسو پونچھے۔ صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے متاثرین کو یقین دلایا کہ پورا ملک ان کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد حملہ میں ملوث شخص کو ایک دہشت گرد قرار دینے میں بالکل وقت نہیں لگایا، ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا کہ اس جنونی دہشت گرد کا نام تک اپنی زبان پر نہیں لائیں تاکہ جس مقصد سے اس گھناؤنے عمل کا مرتکب ہوا ہے اس کو شکست ملے۔ جاسنڈا آرڈرن نے ایک درد مند دل کی حامل قائد ہونے کے ساتھ ہی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوئی لچک پیدا نہیں ہونے دی اور وعدہ کیا کہ ایک مہینہ کے اندر بندوق سے متعلق قانون میں زبردست تبدیلی ہوگی۔ انہوں نے اس وعدہ کو پورا کرکے دکھایا اور پورے ملک کے مزاج کو اس عمل کے لئے تیار بھی کر لیا۔ ہمارا ملک ہندوستان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں جس طرح گزشتہ کئی برسوں سے جوجھ رہا ہے اس کو پیش نظر رکھا جائے تو سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ جاسنڈا آرڈرن کی قیادت کا کتنا بڑا رول رہا ہے کہ انہوں نے عالمی سیاست کو انسانیت نوازی کا ہنر سکھایا۔ انہوں نے کورونا جیسے مہلک مرض کے جان لیوا اثرات سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لئے جو اقدامات کئے تھے وہ بھی قابل تعریف رہے ہیں اور ان کی اس قیادت کی وجہ سے نیوزی لینڈ ان ملکوں کی فہرست میں شامل رہا ہے جہاں کورونا سے بہت کم اموات واقع ہوئی ہیں۔ ان کی قیادت کا یہ پہلو بھی ثابت کرتا ہے کہ ان کی سیاست انسانیت نوازی، رحم اور عدل و انصاف جیسی اعلیٰ قدروں سے مزین تھی۔ ان کا وجود عالمی سیاست کو توازن عطا کرتا تھا۔ اب بس یہی امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی جگہ نیوزی لینڈ کو ایسی قیادت نصیب ہو جو ان کے ذریعہ قائم روایت کو آگے بڑھا سکے اور فسطائیت کے اثرات سے اس معاشرہ کو محفوظ رکھے۔ جہاں تک جاسنڈا آرڈرن کا سوال ہے تو دنیا ان کو ہمیشہ ایک ایسے لیڈر کے طور پر یاد رکھے گی جنہوں نے ایسے وقت میں محبت و رواداری کا چراغ جلائے رکھا جب ہر طرف نفرت و خوں ریزی کی آندھیاں اپنے شباب پر تھیں۔ ان کا یہ کارنامہ کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS