عبدالماجد نظامی: حجاب پر پابندی سے مسلم طالبات کا تعلیمی مستقبل کیسے متاثر ہوا؟

0

عبدالماجد نظامی

ریاست کرناٹک کا اڈوپی ضلع 2022 میں مسئلہ حجاب کی وجہ سے سرخیوں میں رہا۔ ہندوتو عناصر کو مسلم طالبات کے طرز لباس سے اس قدر پریشانی ہو رہی تھی کہ انہوں نے عصمت و پاکیزگی اور وقار و سنجیدگی کی علامت سمجھی جانے والی چیز پردہ یا حجاب کے خلاف مورچہ کھول دیا اور معاملہ اس حد تک پہنچا کہ ہندوستان کی اونچی عدالتوں میں اس قضیہ پر بحث ہوئی اور آخرکار حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ دراصل حجاب پر پابندی کا معاملہ مسلم اقلیت کے خلاف ہندوتو کے ذریعہ چھیڑی گئی اس مسلسل جنگ کا حصہ ہے جس کے تحت ہر اسلامی تشخص کی بیخ کنی سنگھ کا بنیادی مقصد ہے۔ اسی پلان کا حصہ یہ پہلو بھی ہے کہ مسلم اقلیت کو تعلیمی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقیات کے مواقع سے محروم کیا جائے۔ افسوس ناک امر یہ رہا کہ عدلیہ نے بھی اس بات کا دھیان نہیں رکھا کہ حجاب پر پابندی عائد کرنے سے کیا مہلک نتائج سامنے آئیں گے اور حجاب کو اپنی مرضی سے اختیار کرنے والی بچیوں پر اس پابندی کے کیا تعلیمی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔ جب عدالت میں یہ معاملہ زیر بحث تھا اس وقت بھی معزز جج صاحبان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی تھی کہ مسلم طالبات پر ایسی کسی بھی پابندی کا منفی اثر پڑے گا لیکن ججوں نے اپنے فیصلہ میں اس کا بالکل خیال نہیں رکھا اور ترقی پسندی کا وہی فرسودہ مغربی فلسفہ ہندوستانی سماج پر تھوپ دیا جس کے تحت حجاب دقیانوسی اور پچھڑے پن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حال ہی میں ’انڈین ایکسپریس‘ میں حجاب پر پابندی اور اس سے رونما ہونے والے اثرات سے متعلق جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس سے صاف ہو جاتا ہے کہ جن خدشات کا اظہار مسلم خواتین کے وکلاء نے عدالتوں کے سامنے کیا تھا وہ سچ ثابت ہوگیا ہے۔ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اڈوپی ضلع کے اندر جہاں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج سب سے زیادہ ہوا تھا وہاں مسلم طالبات نے قبل از یونیورسٹی مرحلہ کے سرکاری کالجوں میں داخلہ لینا کم کر دیا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 کے مقابلہ 2023 میں پری یونیوسٹی کالجوں میں مسلم طالبات کے داخلہ کی تعداد بالکل نصف ہوگئی ہے۔ 2022 میں 178 مسلم طالبات نے پری یونیورسٹی سرکاری کالجوں میں داخلہ لیا تھا اور اب 2023 میں یہ تعداد گھٹ کر محض 91 رہ گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ مسلم لڑکوں نے بھی ان سرکاری کالجوں میں داخلہ لینا کم کر دیا ہے کیونکہ گزشتہ سال داخلہ لینے والوں کی تعداد 210 تھی جو اب گھٹ کر 95 ہوگئی ہے۔ مسلم لڑکوں نے ان سرکاری کالجوں میں اپنا داخلہ لینا کیوں کم کر دیا ہے اس کی تشریح اس کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں کالج انتظامیہ کی جانب سے اطمینان نہیں رہا ہوگا کہ انہیں ان کے مذہبی تشخص کی حفاظت کے سلسلہ میں کوئی تعاون ملے گا اور اسی لئے انہوں نے بھی سرکاری کالجوں کو خیرباد کہہ دینا ہی مناسب سمجھا۔ یہ پہلو نہایت پریشان کن اور تکلیف دہ ہے کیونکہ مسلم طلبہ و طالبات کے سامنے جو آپشنز چھوڑے گئے وہ کسی بھی اعتبار سے قابل ستائش نہیں کہے جا سکتے۔ یہ پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک جمہوری ملک میں اقلیتی طبقہ کے سامنے ایسے اختیارات دیے گئے جو مشکل سے جمع کیے جا سکتے تھے۔ مسلم طلبہ و طالبات کو گویا عملی طور پر یہ کہا گیا کہ یا تو وہ تعلیم حاصل کریں یا پھر اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کا راستہ اختیار کریں۔ جب اس قسم کے آپشنز دیے جائیں گے تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جو اوپر کی سطروں میں ذکر کیے گئے ہیں۔ ایک طریقہ سے مسلم طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان دونوں میں سے کوئی ایک آپشن اختیار کر لیں۔ ایک جمہوری نظام میں ایسے آپشنز سرے سے رکھے ہی نہیں جانے چاہئے۔ اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی علمی، فکری اوراقتصادی ترقی کے اسباب مہیا کرے لیکن باقی معاملوں میں انہیں معقول آزادی عطا کرے۔ خاص طور سے مذہب و عقیدہ کے معاملہ میں اسٹیٹ اپنی مداخلت سے باز ہی رہے تو بہتر ہوگا۔ حجاب پر پابندی کے نتیجہ میں جن طالبات نے پرائیوٹ کالجوں کا رخ کیا ہے ان میں سے بیشتر کی مالی حالت کیا ایسی ہوگی کہ وہ اپنی تعلیم کو مکمل کر سکیں گی؟ خود این ایس ایس 2014 کے ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 18 سے 24 برس کے تقریباً 45 ملین ایسے انڈر گریجویٹ اسٹوڈنٹس ہیں جو مالی تنگی کی بناء پر اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکتے ہیں۔ ان میں 16.6 فیصد لڑکے ہیں جب کہ 9.5 فیصد لڑکیاں ہیں۔ تعلیم کے حصول کی راہ میں غربت و فقر سب سے بڑی رکاوٹ مانی جاتی ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کی تعلیمی زندگی کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ بھی مالی دقتوں کی وجہ سے بہتر کالجوں میں اپنے بچوں کو نہیں بھیج پاتے کیونکہ ہندوستان میں تعلیم اور صحت دو ایسے میدان ہیں جہاں لوگوں کو اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑتا ہے اور اسی لئے مجبوراً انہیں ایسے اداروں اور ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں کی کوائلٹی بہتر نہیں ہوتی۔ اگر تعلیم کے میدان میں مہنگے اور کمتر کوائلٹی کے کالجوں کا رخ کرنا پڑے گا تو اس کے کیا سماجی اور اقتصادی نتائج برآمد ہوں گے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص ان پہلوؤں کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ AISHE-2019-20 کا جو ڈاٹا ہمارے پاس موجود ہے اس کے مطابق 78 فیصد کالج پرائیویٹ مالکان کے ہاتھوں میں ہیں جو وہاں داخلہ لینے والے محض 66 فیصد طلبہ و طالبات کی تعلیمی ضرورتوں کو ہی پورا کر پاتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہر میدان سے بے دخل کرنے کی وجہ سے ان کی اقتصادی اور تعلیمی حالت زیادہ متاثر ہوئی ہے اور اسی لئے غربت و ناخواندگی کی شرح مسلمانوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ جب تک سچر کمیٹی کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی تب تک مسلمانوں پر یہ بیجا الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ سیکولر تعلیم میں رغبت نہیں رکھتے ہیں اور اسی لئے اپنے بچوں کو سیکولر تعلیم کے حصول کے لئے نہیں بھیجتے ہیں۔ سچر کمیٹی نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں سیکولر تعلیم کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے لیکن بہت ساری سماجی، معاشی اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پاتے ہیں۔ ارباب اقتدار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں تیار نہ کریں جن سے تعلیمی اور معاشی ترقی کی راہیں مسدود ہوتی ہوں۔ ایسا کرنا صرف فرد اور خاندان کے لئے ہی نہیں پورے ملک اور معاشرہ کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ شخص صرف اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ کے لئے ہی نہیں پورے ملک کے لئے ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اڈوپی میں حجاب کے نام پر جن بچیوں کے لئے تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی گئی ہیں اس کے نقصانات بھی ملک گیر ہوں گے۔ کیونکہ اگر اپنی مالی تنگیوں کی وجہ سے ان کے والدین درمیان میں ہی ان کی تعلیم کا سلسلہ بند کروانے پر مجبور ہو جائیں گے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ تکثیریت پر مبنی کسی بھی سماج کا ایسا ڈھانچہ تیار کرنا جس میں عقیدہ اور تعلیم کے درمیان کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو یہ اس سماج کے مستقبل کے لئے بڑے خطرہ کی بات ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS