عام آدمی پارٹی کی پروقار شکست: قربان علی

0

قربان علی

دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی کوئی بڑی ہار نہیں ہوئی ہے۔ ووٹوں کو دیکھا جائے تو بی جے پی کو 45.56 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ عام آدمی پارٹی کو 43.57 فیصد۔ دونوں پارٹیوں کے ووٹوں میں 1.99 فیصد کا ہی فرق ہے، چنانچہ یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کا بالکل صفایا ہو گیا ہے یا اس کی کراری شکست ہوئی ہے، البتہ اتنے زیادہ ووٹوں کو عام آدمی پارٹی سیٹوں میں منتقل نہیں کر پائی۔ 3 سیٹوں پر تو ہار جیت کا فیصلہ 1000 سے کم ووٹوں کے فرق سے ہوا۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی تو جیت گئی ہے مگر عام آدمی پارٹی کو بری نہیں، باوقار شکست ملی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ اپنی عزت بچانے میں کامیاب رہی ہے۔

آپ یعنی عام آدمی پارٹی کے وجود میں آنے کی بنیاد ایک تحریک بنی تھی۔ اسی لیے عام لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پارٹی دوسری پارٹیوں سے الگ ہے۔ یہ بدعنوانی کے خلاف ہے۔ مفاد عامہ کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔ اسے لوگوں کے حالات کا خیال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2013 کے اسمبلی انتخابات کی بات اگر نہ کی جائے، جس میں عام آدمی پارٹی کو 28 سیٹیں ملی تھیں اور اس نے کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی تھی جو زیادہ دنوں تک چل نہیں سکی، بات 2015 اور 2020 کے دہلی اسمبلی انتخابات کی کی جائے تو دونوں میں اسے بھرپور مینڈیٹ ملا۔ 2015 میں عام آدمی پارٹی کو 67 سیٹیں ملیں جبکہ 2020 میں 62۔ مطلب یہ کہ عام بول چال کی زبان میں اگرکہیں تو دونوں ہی بار عام آدمی پارٹی کو ’پرچنڈ بہومت‘ ملا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ 2015 میں دہلی کے لوگ عام آدمی پارٹی کو کام کرنے کا موقع دینا چاہتے تھے، کیونکہ ان کی اس سے امیدیں وابستہ تھیں اور انتخابی کامیابی کے بعد عام آدمی پارٹی نے عین ان کی امید کے مطابق کام کیا۔ دہلی کے لوگوں کے لیے 200 یونٹ تک بجلی فری کی۔ اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے پر بھی کچھ چھوٹ دی۔ ہر ماہ 20 ہزار لیٹر پانی فری کر دیا۔ اسکولوں کو بہتر بنایا۔ سہولتوں میں اضافہ کیا۔ اسپتالوں پر توجہ دی۔ جگہ جگہ محلہ کلنک کھولا۔ مفاد عامہ کے انہیں کاموں کی وجہ سے اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی 2020 میں بھی 53.57 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی لیکن 2025 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں اسے 10 فیصد ووٹوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نقصان اسے کیوں ہوا؟ اس کے ووٹ بینک میں10 فیصد کی کمی کیوں ہوئی؟

دراصل اروند کجریوال اور ان کے ساتھیوں نے بدعنوانی کے خلاف مہم چلائی تھی اور لوگوں کو یہ امید بندھائی تھی کہ وہ سیاست کو بدل دیں گے، ان کی سیاست نئی طرح کی ہوگی، اس میں بدعنوانی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ پہلے ٹرم میں بطور وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے مفاد عامہ کے کاموں سے یہ ثابت کیا کہ لوگوں کے خواب کو وہ پورا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے مقابلے پنجاب میں، جہاں زیادہ اسمبلی سیٹیں ہیں، عام آدمی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اس سے لوگوں کی اور زیادہ توقعات وابستہ ہوگئیں۔ وہ یہ خواب دیکھنے لگے کہ عام آدمی پارٹی قومی سیاست پر اثر ڈالے گی لیکن پھر خبر آئی شراب گھوٹالے کی۔ اس معاملے میں پہلے ستیندر جین، پھر منیش سسودیا اور پھر اروند کجریوال جیل گئے۔ سنجے سنگھ کو بھی جیل جانا پڑا۔ شراب گھوٹالے کے سلسلے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کہ واقعی گھوٹالا ہوا تھا یا نہیں، البتہ اس سے ایک پرسیپشن بنا اور سیاست میں پرسیپشن بہت کام کرتا ہے۔ راجیو گاندھی کی حکومت بوفورس معاملے میں نمٹ گئی تھی۔ ٹوجی، تھری جی اور کامن ویلتھ گیمز کے گھوٹے کی خبروں کی وجہ سے منموہن سنگھ حکومت کی مقبولیت برائے نام رہ گئی۔ بوفورس اور ٹو جی، تھری جی کے سلسلے میں راجیو حکومت اور منموہن حکومت کے خلاف لوگوں کی ذہن سازی میں میڈیا کا بڑا اہم رول تھا۔ شراب گھوٹالے کے معاملے سے کجریوال حکومت کی شبیہ مسخ ہوئی۔ لوگوں کو اپنے خواب ٹوٹنے جیسا لگا اور پنجاب کے شاعر پاش کا کہنا ہے- ’بہت خطرناک ہوتا ہے خوابوں کا مرجانا‘۔ اس کا اثر دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں نظر آیا۔عام آدمی پارٹی جس کے پاس 2020 میں 62 سیٹیں تھیں، 2025 میں 22 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ اسے 40 سیٹوں کا نقصان ہوا جبکہ 40 ہی سیٹوں کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ وہ مجموعی طور پر 48 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی لیکن کارکردگی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عام آدمی پارٹی کی بہت زیادہ بری حالت نہیں رہی ہے۔ وقت رہتے توجہ دیتی تو ایسی حالت بھی نہ ہوتی۔
عام آدمی پارٹی یہ پرسیپشن ختم کرنے میں ناکام رہی کہ اس کے لیڈر بدعنوانی ختم کرنے آئے تھے لیکن وہ خود ہی بدعنوانی میں ملوث ہوگئے۔ کجریوال کی امیج سلیپر پہننے والے، سڑکوں پر سوجانے والے، لوگوں کے لیے لڑنے والے اور ایسی باتیں کرنے والے لیڈر کی تھی جو چھو ٹی کار استعمال کرے گا، چھوٹے گھر میں رہے گا۔ اسی لیے ’شیش محل‘ والی تشہیر سے کجریوال کی امیج متاثر ہوئی۔ عام آدمی پارٹی جب وجود میں آئی تھی تو اس نے یہ امید بندھائی تھی کہ مسلمانوں کے لیے بی جے پی والی پالیسی اس کی نہیں ہوگی اور کانگریس کی دہلی حکومت پر بدعنوانی کے جو داغ لگے تھے، وہ اس طرح کے داغوں سے پاک رہے گی۔ وہ سیکولر ہے۔ اس کا یقین آئین ہند میں ہے لیکن عام آدمی پارٹی ان اصولوں پر قائم نہیں رہ سکی۔ شاہین باغ والے معاملے میں اس کا موقف بی جے پی سے مختلف نہیں تھا۔ شمال مشرقی دہلی کے فسادات کے سلسلے میں اس کا کہنا تھا کہ پولیس ہمارے پاس نہیں۔ ہم نے آتشی سے پوچھا تھا، آپ امن مارچ نکال سکتی تھیں۔ آپ کو مفاد عامہ کے کام کرنے سے کس نے روکا تھا؟ فساد میں 60 لوگ مارے گئے۔ کورونا کے وقت میں تبلیغی جماعت کے مرکز کو جس طرح نشانہ بنایا گیا، اس میں عام آدمی پارٹی اور اس کی حکومت کا موقف بی جے پی سے الگ نہیں تھا، یہ بھی مسلمانوں کو پسند نہیں آیا۔ اپنی تشکیل کے وقت کی آئیڈیالوجی کو نظر انداز کرنا اور حق و انصاف کے ساتھ نہ کھڑا رہنا بھی عام آدمی پارٹی کو بھاری پڑا۔ مسلمانوں میں یہ میسیج گیا کہ عام آدمی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔

اب رہی اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی بات تو لوک سبھا انتخابات کے وقت ہی اس میں دراڑیں نظر آنے لگی تھیں۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی پارٹی، آل انڈیا ترنمول کانگریس نے تنہا انتخاب لڑا۔ کانگریس کے ریاستی صدر ادھیر رنجن چودھری ممتا بنرجی کے خلاف مسلسل بولتے رہے۔ یہ بات الگ ہے کہ انتخابی نتائج آنے کے بعد انہوں نے یہ قبول کیا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے مابین اتحاد نہیں ہوا۔ دونوں نے وہاں لوک سبھا الیکشن الگ لڑا۔ کیرالہ میں بھی یہی صورتحال رہی۔ ہریانہ کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مابین اتحاد نہیں ہوا۔ عام آدمی پارٹی کو تقریباً 2 فیصد ووٹ ملے جبکہ کانگریس اور بی جے پی کے ووٹوں میں ایک فیصد سے بھی کم ووٹوں کا فرق تھا۔ ہریانہ میں عام آدمی پارٹی سے کانگریس کے اتحاد کی صورت میں انتخابی نتائج کچھ اور ہوتے۔ کانگریس کو 5-7 سیٹوں کے فائدے کا امکان رہتا ۔ اسی طرح دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد نہیں ہوا۔ کئی سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کے امیدوار جتنے ووٹوں سے ہارے، ان سیٹوں پر اس سے زیادہ ووٹ کانگریس کے امیدواروں کو ملے۔ ان سیٹوں میں سابق وزیراعلیٰ اروند کجریوال، سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا، سومناتھ بھارتی کی سیٹیں شامل ہیں۔

نئی دہلی سیٹ سے بی جے پی کے پرویش صاحب سنگھ نے اروند کجریوال کو 4089 ووٹوں سے ہرایا۔ اسی سیٹ پر کانگریس کے سندیپ دیکشت نے 4568 ووٹ حاصل کیے۔ جنگ پورہ سے بی جے پی کے تروندر سنگھ ماروا نے منیش سسودیا کو 675 ووٹوں سے شکست دی۔ اس سیٹ پر کانگریس کے فرہاد سوری کو 7350 ووٹ ملے۔ مالویہ نگر سے بی جے پی کے ستیش اپادھیائے نے سومناتھ بھارتی کو 2131 ووٹوں سے ہرایا۔ اسی سیٹ پر کانگریس کے جتیندر کمار کوچر نے 6770 ووٹ حاصل کیے۔ اگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں اتحاد ہوجاتا تو ان سیٹوں کے ہی نہیں، دیگر سیٹوں کے نتائج بھی کچھ اور ہوتے لیکن نتائج کے بعد اگر مگر کی گنجائش نکل ہی آتی ہے۔ کئی انتخابی نتائج کے بعد ایسا دیکھنے میں آیا ہے مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے۔ ان چیزوں سے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ پر فرق پڑنے کا ضرور اندیشہ ہے۔ یہ اتحاد تبھی رہے گا جب اتحادی پارٹیاں سمجھوتے، قربانی کے جذبے کا اظہار کریں گی۔ مغربی بنگال میں جیوتی بسو نے 32 سال حکومت چلائی اور سبھی اتحادی پارٹیوں کا خیال رکھا۔ اس صورت میں بھی جب کبھی کسی اتحادی پارٹی کی سیٹیں کم ہوگئیں۔ کیرالہ میں بھی اسی طرح حکومت چل رہی ہے بلکہ این ڈی اے کو ہی دیکھ لیجئے۔ اس بار بی جے پی کی سیٹیں کم ہوئی ہیں لیکن 2014 اور 2019 میں تو اس کو کافی سیٹیں ملی تھیں، وہ اپنے بوتے پر حکومت سازی کی پوزیشن میں تھی، اسے اتحادی پارٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس کے باوجود اس نے اتحادی پارٹیوں کا خیال رکھا۔ انو پریہ پٹیل کی اپنا دل (سونے لال)، رام داس اٹھاولے کی ری پبلکن پارٹی آف انڈیا، ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا، شرومنی اکالی دل، رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی، اجیت سنگھ کی انڈین نیشنل لوک دل اور این ڈی اے کی دیگر پارٹیوں کو بی جے پی بڑی اچھی طرح لے کر چلی ہے۔

اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی پارٹیوں نے اپنے اختلافات ختم نہیں کیے، قربانی دینے کی اہمیت نہیں سمجھی تو اس اتحاد کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا جبکہ اسی اتحاد کی وجہ سے 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اتنی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی کہ پوری طرح اپنے بوتے پر ہی حکومت بنا پاتی۔ اتحاد کے بغیر کیا نتائج آتے ہیں، اس کی مثالیں گزشتہ اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی ہیں اور دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی۔

(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، خاور حسن سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS