پروفیسر اسلم جمشید پوری
عجب نظام وقت ہے کہ چیزیں بنتی ہیں، منتشر اوردورہوجاتی ہیں،ٹوٹ اور بکھر جاتی ہیں۔2023میں جب اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کا قیام عمل میں آیا تھا اور اروند کجریوال آگے آگے تھے،تب کسی نے سوچا نہ تھا کہ اروند کجریوال ہی اس مضبوط اتحادی دیوار کے متزلزل ہونے کا باعث ٹھہریں گے۔ سال ڈیڑھ سال کے اندر ’انڈیا‘ کی اتحاد ی دیوارمیں دراڑ اتنی گہری ہو جائے گی کہ وہ گر جائے گی ۔کسی نے صحیح کہا ہے کہ غرور و گھمنڈ انسان کو اندر اندر دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتے ہیں اور وہ چلتا چلتا اچا نک غیر محسوس طریقے سے زمیں بو س ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ عام آدمی پارٹی کے ساتھ ہوا۔ دہلی میں رہنے والے اور دہلی پر حکومت کرنے کے لیے دہلی ’دور‘ ہوجا ئے گی۔ مندرجہ بالا شعر مسلمانوں کیلئے کہا گیا تھا لیکن اس وقت کجری وال پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے ، بقول اقبالؔ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جوشاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ،نا پائیدار ہوگا
دہلی انتخابات کے رزلٹ کا سب کو بڑی بے صبری سے انتظار تھا۔دراصل یہ مانا جا رہا تھا کہ بی جے پی اور آپ میں زبردست ٹکر ہوگی لیکن کانگریس کا بھی بہت اہم رول ہو گا۔ کہیں کہیں مقابلہ سہ رخی لگ بھی رہا تھامگر جب 8 فروری2025کو دہلی الیکشن کا پٹارہ کھلا تو اس میں سے بی جے پی کا بھوت برآمد ہوا،جس نے 48سیٹوں پر فتح کا پرچم لہرا یا تھا ۔آپ کو22 سیٹوں پر ہی صبر کرنا پڑا تھا اور کانگریس خالی ہاتھ رہ گئی تھی ۔سب سے مزے دار اور حیرت انگیزبات اروند کجریوال کا ہارنا تھی۔آتشی نے تو جیت کر اپنی اور عام آدمی پارٹی کی عزت بچالی تھی،مگر سسودیا کی ہار نے زخموں پہ نمک کا کام کیا تھا ۔بی جے پی 26سال بعد بر سراقتدار آنے والی تھی ۔اس نے ایوان کے جادوئی اعدادوشمار36کو آسانی سے پار کر لیا تھا ۔اب بی جے پی کو دہلی میں حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
عام آدمی پارٹی کی اس یاد گار شکست کا ذمہ دار کون ہے ؟ کس نے ’آپ‘ کی کشتی کو منجھدھار میں ڈالا ہے ؟وہ عام آدمی پارٹی جو 68،62 یعنی ہمیشہ60سے زائڈ سیٹیں لاتی تھی، جس نے بہت جلد علاقائی پارٹی سے پنجاب جیت کر قومی پارٹی بننے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا،اسے اب کیا ہوگیا؟ کس کی نظر لگ گئی ؟سنا ہے کہ دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے پنجاب کی سرکاری مشنری کا بھی ناجائز استعمال کیا؟ مگر اس کے بعد بھی نتائج من پسند نہیں آئے ۔آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟
-1اروند کجریوال کی حد سے زیادہ خود اعتمادی۔ گزشتہ دنوں اروند کجری وال نے جو کچھ کیا وہ ان کے تکبر کو ظاہر کرتا ہے ۔ایک تو انہوں خود اعتمادی کے نشے میں ’انڈیا ‘ سے اتحاد کو جوتے کی نوک پر رکھا،جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ کانگریس تو کانگریس، دوسری جماعتوں نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کر دیے ۔جس سے بی جے پی کا قوی امکان روشن ہونے لگا ۔سیاسی حلقوں میں یہ بات گردش کر نے لگی کہ دہلی میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا ‘ پارہ پارہ ہوگیا ہے ۔بس پھر کیا تھا؟ بی جے پی کی بلے بلے ہوگئی ۔چونکہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا ووٹ بینک ایک جیسا ہی تھا،وہ تقسیم ہوا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔بی جے پی کم فیصد ووٹ لاکر بھی کامیاب ہو گئی ۔
-2مسلم مسائل پر کھل کر سامنے نہ آنا۔شاہین باغ اوردہلی مسلم کش فساد میں اروند کجریوال کی خاموشی رنگ لائی ۔کم از کم اروند کجریوال انصاف کی بات تو کہہ سکتے تھے، طرف داری نہ کرتے،مگر انہوں نے ہمیشہ کی طرح مسلم مسائل پر کبھی کھل کر بات نہیں کی ۔تبلیغی جماعت کے تعلق سے ان کا رویہ مسلمانوں کو یا د رہے گا۔ درجنوں مسلم نوجوان تہاڑ جیل میں بند ہیں ،اروند کجریوال نے ان کے لیے کیا کیا؟
-3سابق وزیراعلیٰ کا گرفتار ہونا۔اروند کجریوال کئی بار جیل گئے اور ہمیشہ خود کو بے قصور بتاتے رہے۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ہو سکتا ہے وہ بے قصور ہوں؟ مگر بغیر آگ کے دھواں نہیں اٹھتا۔ عدالتوں میں خود کو بے قصور ثابت کرنا پڑتا ہے۔ منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ اور منیش سسو دیا آبی اسکیم (شراب پالیسی) کے تحت جیل جانے سے پارٹی کی مقبولیت پر کافی اثر پڑا۔
-4خود کو سچا ثابت کرنے کی ناکام کوشش۔اروند کجریوال نے خود کو بے قصور اور سچا ثابت کر نے کے لیے جیل سے عارضی طور پر رہا ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور محترمہ آتشی کو دہلی کا نیا وزیراعلیٰ بنایا۔ ساتھ ہی یہ بھی قسم کھائی کہ دہلی کے عوام سے ووٹ کی شکل میں خود کو جب تک بے قصور ثابت نہ کر لیں گے، وہ وزیراعلیٰ کی کر سی پر نہ بیٹھیں گے ۔اب کیا ہوگا؟ اب تو عوام نے انہیں ووٹ کے لائق ہی نہیں سمجھا ۔نہ صرف عام آدمی پارٹی کو حکومت سے باہر کا راستہ دکھایا بلکہ اروند کجریوال کو بھی کراری شکست کا سامنا کر نا پڑا۔
-5قومی پارٹی کے بانی ہونے کا غرور۔اروند کجریوال کو یہ احساس فخر بلکہ غرور کی حد تک تھا کہ عام آدمی پارٹی کا اسٹیٹس اب قومی پارٹی کا ہے اور اس کی پارٹی کی دو دو ریاستوں دہلی اور پنجاب میں حکومتیں ہیں۔اسی احساس کی وجہ سے انہوں نے ہر یانہ الیکشن میں کانگریس سے ہاتھ نہیں ملایا۔ مہاراشٹر،گجرات ،اترپردیش، اتراکھنڈ، بہار اور جھارکھنڈ میں بھی اپنے امید وار کھڑے کیے،یہ الگ بات ہے کہ سب جگہ انہیں ہار کا منہ دیکھنا پڑا ۔
-6 دہلی والوں پر اپنا حق جتانا۔ اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کی ہار کی ایک وجہ دہلی والوں پر اپنا حق اور اختیار سمجھنا بھی ہے ۔دہلی میں دوتین بار کیا جیتے اور کچھ عوامی فلاحی کام کیا کیے،وہ دہلی کو اپنی جائیداد سمجھنے لگے ۔جبکہ انہیں حال کی بیجو پٹنائک کی شکست فاش کا ذرا بھی خیال نہیں رہا۔یہ سیاست ہے ،یہاں کام کے ساتھ دور اندیشی، حکمت اور وقت کے تقا ضے کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔
-7اکثریتی فرقہ سے بے انتہا لگائو۔اروند کجریوال کا اکثریتی فرقہ کے متعلق بہت نرم رویہ رکھنا ان کو فرقہ پرست ثابت کرتا ہے ۔رام مندر کا افتتاح ہوا تو اروند کجریوال نے دہلی کے ہر علاقے میں سندر کانڈ کا پاٹھ اور مندروں میں ہنومان چالیسا پڑھنے کا اعلان کیا۔ الیکشن سے قبل انہوں نے دہلی کے پجاریوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ۔
-8 بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف مضبوط لائحہ عمل کا فقدان ۔دراصل عام آدمی پارٹی نے دہلی پر ایک دہائی سے زیادہ حکومت کی ۔اس طویل عرصے میں بھی عام آدمی پارٹی بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف کوئی مضبوط و مستحکم منصوبہ نہیں بنا سکی ،نہ ہی اپنا کوئی انقلابی نظریہ دہلی والوں کے روبرو پیش کر سکی۔الٹے آر ایس ایس کی خوشامد ہی کرتی رہی ۔
-9دہلی اور پنجاب میں اردو کے لیے کچھ خاص نہ کرنا۔ امید تھی کہ دہلی اور پنجاب میں اردو اکادمی،حج ہائوس، اماموں کی تنخواہوں اور اقلیتی امور کا بجٹ پہلے سے بہت زیاد ہ ہوگا اور اس کا فائدہ مسلمانوں کو ہوگا۔مگر ایسا نہیں ہوا۔پنجاب میں تو اردو والوں کو عام آدمی پارٹی کی حکومت کے آنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
-10کانگریس کوہلکے میں لینا ۔اروند کجریوال نے اپنے غرور و گھمنڈ میں ہمیشہ کانگریس کو کم آنکا ۔ٹھیک ہے کہ دہلی میں اب کانگریس کا وہ ووٹ فیصد نہیں ہے،مگر وہ جو کہتے ہیں کہ مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے،دہلی میں آپ اگر کانگریس سے ہاتھ ملاتی اور دونوں ساتھ لڑتے تو یہ حالات نہیں ہوتے ۔کانگریس تو 15-20سیٹوں پر بھی مان جاتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔
ان مذکورہ وجوہات اور دیگر کے سبب عام آدمی پارٹی دہلی میں بی جے پی سے بری طرح ہار گئی ۔یہی نہیں اب پارٹی کے ٹو ٹنے کی نوبت آگئی ہے ۔کئی عام آدمی پارٹی کونسلر بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں ۔بی جے پی بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے ۔حکومت سازی کے لیے بی جے پی میں کوئی جلد بازی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے، بی جے پی دہلی کی کمان کسی خاتون کے حوالے کرے ۔کچھ بھی ہو عام آدمی پارٹی بہت بڑی سیاسی مصیبت میں گرفتار ہو چکی ہے ۔اس کے لیے ’’ہنوز دلی دور است ‘‘ ہو گئی ہے ۔