سرزمین ہند پر حقیقی جنت جموں و کشمیر۔ اس ریاست کو جنت سے مشابہت اس لیے دی جاتی ہے، کیوں کہ قدرت نے اس جگہ کو جو کچھ بھی دیا، وہ سب کچھ سرزمین ہند کے ناقابل تقسیم جسم کے حصے ہیں۔ مثال کے لیے زعفران کی کیاریوں سے زعفران ملا، برف سے سفید اور چنار کے ہرے رنگ کو لے کر ملک کا قابل اعزاز ترنگا بنایا گیا۔ اب اسی ترنگے کی چھاؤں میں امن کی راہ پر بڑھے کشمیر میں قدرت نے اپنا سب سے بڑا اصول تبدیلی نافذ کردیا جس کا پہلا منظر تھا کشمیریت کے نام پر تلخ نظریہ سے گھورنے والے چہروں کی ہم آہنگی۔
جموں و کشمیر میں جمہوریت کی بحالی اور سیاسی عمل شروع کرنے کے ارادے سے دہلی میں بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں ماحول اتنا خوشگوار رہا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ لگا ہی نہیں کہ یہ وہی لیڈر تھے جنہیں دو سال پہلے آرٹیکل370 کو غیرمؤثر بنانے سے پہلے یا تو نظربند کرلیا گیا تھا یا پھر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ سب کو حیران کرنے والی بات یہ رہی کہ آل پارٹی میٹنگ میں آرٹیکل370پر چرچہ ہوئی ہی نہیں۔ سب کا زور اسی بات پر رہا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دوبارہ ملے اور وہاں الیکشن ہو۔
وزیراعظم نریندر مودی کی یہ پہل اس معنی میں ہمیشہ کامیاب سمجھی جائے گی کہ ایک ہفتہ کے اندر انہوں نے اس آل پارٹی میٹنگ کو انجام دے ڈالا۔ اتنے وقت میں تو کسی بڑی سیاسی پارٹی کی اپنی سینٹرل میٹنگ تک نہیں ہوپاتی ہے۔ یقینی طور پر اندرون خانہ اتفاق قائم کرلیا گیا ہوگا جس وجہ سے آل پارٹی میٹنگ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ محبوبہ مفتی نے میٹنگ میں شامل ہونے سے متعلق ابتدا میں جھجھک دکھائی تھی لیکن وہ بھی جلد دور ہوگئی۔
جموں و کشمیر میں جمہوریت کی بحالی اور سیاسی عمل شروع کرنے کے ارادے سے دہلی میں بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں ماحول اتنا خوشگوار رہا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ لگا ہی نہیں کہ یہ وہی لیڈر تھے جنہیں دو سال پہلے آرٹیکل370 کو غیرمؤثر بنانے سے پہلے یا تو نظربند کرلیا گیا تھا یا پھر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ سب کو حیران کرنے والی بات یہ رہی کہ آل پارٹی میٹنگ میں آرٹیکل370پر چرچہ ہوئی ہی نہیں۔ سب کا زور اسی بات پر رہا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دوبارہ ملے۔
اس میٹنگ سے وابستہ ایک دیگر اہم بات یہ تھی کہ اس میں 14لیڈروں کو ان کے نام کے ساتھ انویٹیشن دیا گیا تھا۔ کسی بھی پارٹی کو الگ الگ انویٹیشن نہیں دیا گیا تھا، پھر بھی کسی نے اعتراض ظاہر نہیں کیا۔ اگر اعتراض ہوتا تو اسے آل پارٹی میٹنگ کے بجائے 14لیڈروں کے ساتھ وزیراعظم، وزیرداخلہ اور لیفٹیننٹ گورنر کی میٹنگ کہا جاتا۔ مگر اس قسم کا تنازع بھی نہیں اٹھا۔
یقینا وزیراعظم نریندر مودی کی طاقتور شبیہ آل پارٹی میٹنگ میں کارگر ثابت ہوئی۔ ان کی پہل کو سب نے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ امید پیدا ہوئی کہ جموں و کشمیر میں سیاسی عمل شروع ہوسکتا ہے۔ آل پارٹی میٹنگ میں چرچہ کے بعد اس امید میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جموں و کشمیر میں سرگرم سبھی پارٹیوں کو ایک طرح سے سمیٹنے کا کام ہوا ہے۔ سبھی ایک ٹیبل پر آئے، یہ بات اہم ہے۔ بین الاقوامی نظریہ سے بھی یہ اس لیے اہم ہے کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سبھی فریق ایک ساتھ غوروخوض کرسکتے ہیں کیوں کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ چوں کہ میٹنگ کا ایجنڈا طے نہیں تھا اور یہ اچانک بلائی گئی تھی، اس لیے اس میٹنگ کے مقصد پر باتیں بھی الگ الگ طریقوں سے ہورہی ہیں۔مگر غیرملکی دباؤ میں میٹنگ بلانے کی تھیوری میں زیادہ دم نظر نہیں آتا۔ ہندوستان کواڈ سے منسلک ہوکر امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مارچ کررہا ہے۔ چین کو ہندوستان کی یہ بات پسند نہیں آرہی ہے لیکن ہندوستان کی سرحد پر مسلسل چین کا رویہ بھی ہندوستان کو ناگوار گزر رہا ہے۔ حقیقت میں جس توسیع پسندی کی جانب چین قدم اٹھا رہا ہے اور معاشی شعبہ میں وہ سپرپاور بننے کی آرزوکو وسعت دے رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ہندوستان کو اپنے تجارتی اور سفارتی مفادات کو یقینی بنانا ضروری ہوجاتا ہے۔
یقینی طور پر امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد سے ایران کے تئیں اس کا رُخ تبدیل ہوا ہے۔ اسرائیل میں بھی نتن یاہو کے اقتدار سے باہر ہوجانے کے بعد فلسطین کو دیکھنے کے نظریہ میں تبدیلی آتی نظر آرہی ہے۔ مگر جمو ںوکشمیر کے موضوع کو امریکہ کسی نئے طریقہ سے دیکھے گا اس کی گنجائش نہیں کے برابر ہے۔ اس کے برعکس چین کی توسیع پسندی کے سبب ہندوستان کے تئیں دنیا کی ہمدردی میں اضافہ ہوگا۔ حالاں کہ پاکستان بھی فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر نہیں آپایا ہے پھر بھی اس کے ریکارڈ کی تعریف کی گئی ہے۔ طالبان کے ساتھ ہندوستان کی بات چیت کی اہمیت افغانستان میں امریکی کردار کے سلسلہ میں زیادہ ہے۔ اس کا ہندوستان کے زیرانتظام علاقوں کی سیاست سے کوئی راست تعلق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جموں و کشمیر کی میٹنگ پر غیرملکی دباؤ یا اثر کی تھیوری زبان پر چڑھتی نظر نہیں آتی۔
جموں و کشمیر کے ایشو پر وزیراعظم نریندر مودی پہلے ہی پاکستان کو الگ تھلگ کرچکے ہیں۔ یوروپی یونین کے وفد کو جموں و کشمیر کا دورہ کراکر انہوں نے یہ دکھایا تھا کہ جموں و کشمیر کے تعلق سے دنیا میں جو آنسو بہائے جارہے ہیں، وہ بے معنی ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370کے اثر کو ختم کرنے کی پہل پر پاکستان کے ہنگامہ کے ساتھ نظر نہیں آیا تھا۔ بین الاقوامی محاذ پر یہ مودی حکومت کی سفارتی جیت کا ہی نتیجہ ہے کہ سب نے اسے ہندوستان کا اندرونی معاملہ بتادیا۔ گزشتہ دو برسوں میں جموں و کشمیر میں اندرونی امن پائیدار ہوا ہے اور دہشت گردانہ واقعات بھی نہیں کے برابر رہے ہیں۔ اس سے یہی ثابت ہوا ہے کہ جموں و کشمیر میں ہوتے رہے واقعات کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ رہا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین کنٹرول لائن پر سیزفائر نافذ ہونا اس دور کی ایک دیگر حصولیابی ہے۔ ایسے میں اگر جموں و کشمیر میں بغیر کسی مخالفت کے سیاسی عمل شروع کرنے میں مودی حکومت کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے آرٹیکل 370ہٹانے کی کامیاب سیاسی پہل کے طور پر دیکھا جائے گا۔ حدبندی کے بہانہ سیاسی عمل شروع کرنے کی پہل مرکزی حکومت نے آل پارٹی میٹنگ میں حاصل کرلی ہے۔ آل پارٹی میٹنگ میں کسی پارٹی نے اس پر کوئی اعتراض کا اظہار بھی نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی صاف ہوگیا کہ جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دینے کی بات پر سبھی پارٹیاں متفق ہیں۔ بی جے پی نے بھی اسے ’وقت آنے پر‘ یقینی بنانے کا اعتماد دلایا ہے۔ رہی بات سیاسی قیدیوں کی تو یہ کام مرکزی حکومت جب چاہے تب کرسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے بھی وہ وقت کا انتظار کرنا چاہتی ہے۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل370پر جب کبھی سماعت ہوگی تو مرکزی حکومت کی نیک نیتی پر مبنی کوششوں اور مقصد کا ثبوت یہ آل پارٹی میٹنگ بھی ہوگی۔ جموں و کشمیر کے لیڈروں کی نظربندی، دیگر قیدیوں کی رہائی، طویل لاک ڈاؤن،انٹرنیٹ سروس کے ٹھپ ہونے جیسی باتوں پر جواب دینے کے لیے مرکز کے پاس موجودہ حالات کا بیورہ ہوگا۔ مرکزی حکومت اپنے سبھی اقدامات کا بچاؤ موجودہ بہتر ہوتے حالات کو پیش کرتے ہوئے کرسکے گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اب جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ علیحدگی پسندوں کو عوامی حمایت بھی پہلے کی طرح نہیں رہی۔ وہ الگ تھلگ پڑچکے ہیں۔ یہ صحیح وقت ہے کہ جب سیاسی عمل شروع کرکے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قیادت سونپی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کام کتنی جلدی شروع ہوپاتا ہے کیوں کہ ایسا ہوتے ہی جموں و کشمیر میں ایک نئے باب کا آغاز ہوجائے گا۔
اُپیندررائے
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)