عالیہ خان
“رباب آج بے حد خوش تھی۔ آنے والے کچھ دن اس کے لیے بہت خاص ہونے والے تھے ۔ہیلو یار!کیا کرہی ہو؟ آج میں بہت خوش ہوں اور بہت ایکسائیٹیڈ بھی! رباب نے اپنی دوست فوزیہ کو ایک سانس میں سب کہہ ڈالا جیسے وہ خوشی سے پاگل ہوجائیگی ۔
اوہو رباب! سلام تو کرلیتی ۔۔۔ ویسے بڑی خوش لگ رہی ہو کیا بات ہے بھئ کس بات کی ایکسائٹمنٹ ہو رہی ہے ۔
فوزیہ نے بڑے ہی متجسس انداز سے پوچھا تھا “وہ۔۔ وہ ۔۔۔ یار ۔۔۔ بات ہی ایسی ہے۔ یونیورسٹی میں فیض کو اور مجھے ملے پورا ایک سال ہوچکا ہے۔
اور اب ویلین ٹائن ڈے آنے والا ہے۔محبت کرنے والوں کا دن ۔۔۔ آہ فوزیہ ۔۔۔ میں بہت ایکسائیٹیڈ ہوں کہ فیض اس موقع پر کیا کرنے والا ہے۔”
فوزیہ کچھ چپ سی ہوئ تھی۔ وہ ہمیشہ رباب کو سمجھاتی رہتی کہ یہ غلط ہے اور اللہ نے اس کام کو حرام کردیا اور کیا پتہ کہ تمھارے گھر والے مانیں گے بھی نہیں اور وہ فیض تم سے شادی کرے گا بھی کہ نہیں!!لیکن رباب ابلیس کی چال میں اس قدر پھنس چکی تھی کہ وہ فوزیہ کی باتوں کو ہوا میں اڑادیتی۔
تم زنا کرنے والے ویلین ٹائن ۔۔۔ ایک فحاشی کے دن کی منتظر ہو۔اللہ تم پر رحم کرے اور ہدایت دے ۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فوزیہ نے کہا ۔
“آمین آمین اور تمھیں بھی کوئ اچھا سا فیض جیسا بائے فرینڈ دے۔
رباب نے زور سے ہنستے ہوئے کہا۔اچھا چھوڑو یہ سب اور بتاو مجھے میں کیسا برقعہ خریدوں ؟ جس میں ‘میں بہت اچھی لگوں؟
“کیا کروگی برقعہ پہن کر ‘حیا تو آنکھوں میں ہوتی ہے وہی سب کھوگئ تو پھر رسمی حجاب کی کیا ضرورت ! فوزیہ نے زبردست وار کیا تھا۔
“اوہ بس کرو یار ۔۔۔۔ کیا ہمیشہ لے کر بیٹھ جاتی ہو ۔ویسے بھی صرف فیض کے لیے زینت کرتی ہوں اور جلد ہی ہم ایک دوسرے کے محرم ہوجائینگے ۔ ابھی کل ہی میں نے پلازو اور ٹاپ والی فوٹو اسے بھیجی تھی ۔۔۔ دیکھتے ہی ماشااللہ کاراگ الاپنے لگا اور کہہ رہا تھا کہ تم میری بیوی بنوگی میری زینت!
کرنے والا ہوتا تو کب کا تم سے نکاح کرلیتا ۔۔۔ مرد مجبور نہی ہوتا رباب ۔
ایک دوسرے کو جاننے کے لیے سال نہی لگ جاتا ۔ وہ بس تمھیں امیدیں دلا رہا ہے جیسے کہ اللہ نے قرآن میں کہا۔۔
وہ شیطان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔ (سورہ نساء 20)
شیطان تمھیں پھنسارہا ہے۔۔۔ وہ فیض محض وقت گزاری کے لیے تمھیں استعمال کررہا ہے ۔۔۔اوہ شٹ آپ ۔!! بس کرو اب۔۔۔! مجھے کچھ نہی سننا اس کے بارے میں۔رباب نے غصہ سے کہا۔
“اوکے سوری ۔۔ کل ملیں گے ان شاءاللہ ۔۔۔ ابھی رکھتی ہوں۔افسردہ سے لہجے میں کہہ کر فوزیہ نے فون رکھ دیا تھا۔
14 فروری ویلین ٹائن ڈے کی شام‘ رباب حجاب پہنے چوری چھپے اس گارڈن میں پہنچی تھی جہاں فیض نے اسے بلایا تھا ۔۔۔ وہ خوشی سے پھولے نہی سمارہی تھی ۔۔ فیض کے سرپرائز کے لیے بے چین تھیں۔”ہیلو رباب تم آگئ؟فیض کی آواز پر رباب نے پلٹ کر دیکھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی فیض کے دوست ارشاد نے کہا۔اوہ تو یہ ہے رباب !یہ حجاب پہن کر آئ ہے۔
تم تو بہت خوبصورت ہو اتنا اچھا فیگر ہے تمھارا۔پھر اس حجاب کی کیا ضرورت تھی !ارشاد کی بات سن کر رباب جیسے سکتے میں آگئ تھی ۔
کیا! ۔۔۔۔کیا کہنا چاہتے ہو تم؟ یہی کہ بہت حسین ہو تم۔ فیض نے بھیجی تھی تمھاری تصویر ۔۔۔ارشاد نے رباب کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔رباب کے پیروں تلے زمین نکل گئ تھی اس کا دل چاہا کہ وہ زیر زمین دفن ہوجائے۔کیا۔۔۔ کیا مطلب ”
ارے بابا ۔۔۔ جسٹ چِل۔۔۔
ویسے بھی دیکھو اب ایک سال ہوگیا ہمیں ۔۔۔ سب جان چکے ایک دوسرے کے بارے میں تفصیلی۔ اب بوریت ہورہی ہے اس لیے اب یہی ختم کرتے ہیں سب۔ہاں اب تم من بہلانے کے لیے ارشاد سے بات کرلینا اس کے پاس کوئ گرل فرینڈ نہی ہے ۔!
گرل فرینڈ!!رباب کا دل گویا پھٹنے کو تھا۔
شٹ اپ فیض! ایک زناٹے دار تھپڑ کے ساتھ رباب نے کہا۔ تم نے مجھ سے نکاح کی بات کی تھی اس لیے میں نے یہ رشتہ آگے بڑھایا تھا۔وہ روئے جارہی تھی ۔اب تم۔۔۔ تم مجھے ۔۔۔۔۔
یو شٹ اپ!!! کیریکٹر لیس لڑکی ۔۔۔ میں اور تم سے شادی ۔۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔ تم اپنے خدا کی نہ ہوسکی اس برقعہ میں رہ کر حدود کو پار کیا۔۔۔ اپنے گھر والوں کو دھوکے میں رکھا ۔۔۔۔ پھر تم میرے ساتھ کیسے مخلص ہوسکتی ہو۔۔۔اور میں تم جیسی لڑکی سے شادی کرونگا؟؟ جو نکاح سے پہلے ہی غیر مرد سے بات کرسکتی ہے اس کے لیے سب کچھ کرسکتی ہے اپنی حیا کو نیلام کرسکتی ہے ، تو پھر اس کی پاکی کا کیا اعتبار۔اب اپنا منحوس وجود لے کر دفع ہوجاؤ یہاں سے۔گیٹ لاسٹ بکاؤ لڑکی۔۔۔
اپنی ساری خباثت کو پار کرکے فیض نے رباب کو ناپاکی کا فتویٰ لگا کر ریجیکٹ کیا تھا۔
رباب کی تصویریں وائرل کردی گئ تھیں اور اسے خبر بھی نہ تھی ۔وہ اندر سے چور چور ہوچکی تھی وہ روتی گڑگڑاتی رہی ، وہاں سے بھاگ کر اپنے گھر آئ۔ واقعی فیض نے اسے بہت بڑا سرپرائز دیا تھا۔۔ویلین ٹائن ڈے کا سرپرائز!
وہ تمھیں دھوکہ دیگا رباب ۔۔۔۔ کرنے والا ہوتا تو کب کا کرلیتا تم سے نکاح ۔۔۔۔۔ فوزیہ کے الفاظ اسکے کانوں سے گونج رہے تھے ۔۔۔ اللہ کہتا ہے۔۔۔”وہ اِن (بندوں) لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔( سورہ النساء 20)
فوزیہ کی اس قرآنی نصیحت کی یاد سے اس کا سر زور سے گھومنے لگا۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ شیطان فیض ہی تھا جس نے مجھے امیدیں دلائیں تھی ۔۔ وعدے کیے تھے ۔۔ اللہ نے مجھے خبردار کیا تھا ۔۔۔ لیکن میں۔۔۔۔ میں ۔۔۔ سمجھ ہی نہ سکی۔۔۔ اب وہ چیخ چیخ کر رونے لگی ۔۔۔۔ اسے فیض کے ساتھ گزارے سب لمحے سب باتیں یاد آرہے تھے ۔۔۔اس کی روح اندر تک کانپ گئ۔۔ میں نے اپنی دنیا و آخرت دونوں برباد کرلی ۔۔ اللہ مجھے نہی بخشے گا۔۔ وہ منہ چھپا کے روتی رہی ۔۔۔۔ اس نے ڈپریشن میں آکر اپنی ہاتھ کی نبض کاٹ لی تھی۔۔ ایک گہرا دھندلکا اس کا سامنے چھانے لگا ۔۔۔وہ بے ہوش ہوگئ تھی۔۔۔۔۔
گھبرؤمت رباب!سب ٹھیک ہوجائیگا فوزیہ نے بہت ہمدردی سے کہا ۔فوزیہ کو دیکھ کر اسکے آنسو بہنے لگے۔۔۔ وہ ہاسپٹل میں بیڈ پر لیٹی رہی ۔۔۔ سلائن کی بوندیں دھیرے دھیرے کام کررہی تھیں اور آنکھوں کا پانی سیلاب کی طرح بہہ رہا تھا۔
“مجھے سب پتہ چلا فوزیہ نے رباب سے کہا۔
“میں تمھیں ملامت نہی کرونگی رباب۔ تم اللہ سے مایوس مت ہونا ۔۔۔ اس سے توبہ کرو اللہ تمھیں بخش دیگا
لیکن۔۔ لیکن فوزیہ۔۔۔ رباب کے ہکلاتے الفاظ اس کے مایوسی کی ترجمانی کررہے تھے۔نہی رباب ۔۔۔ مایوس مت ہو ۔۔۔ اللہ کہتا ہے ۔۔۔ اے میرے بندوں جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔۔۔ اللہ تمھارے سب گنا ہ بخش دے گا۔ ( الزمر 39)
رباب کے آنسوں سیلاب کی طرح بہنے لگے تھے ۔ وہ دل ہی دل میں پچھتائے جارہی تھی لیکن پچھتاوے کہاں حالات کو بدل سکتے ہیں !! ایک گہری ٹھوکر کے بعد اس نے رب سے رجوع کرلیا تھا۔
اسلام علیکم ۔۔۔ کیسی ہو رباب !!
الحمد اللہ علی کل حال ۔
تم بتاؤ کیسی ہو ۔۔۔ میں نے حیا ڈے کا پروگرام بنالیا ہے ۔پورے دوسال بعد رباب ڈپریشن سے نکلی تھی ۔اب ویلین ٹائن ڈے کی مخالفت میں حیاڈے کو پروموٹ کرنے کا کام کرتی تھی ۔۔۔۔ اوہ ماشااللہ
اچھا سنو ۔۔۔ وہ جو فیض ہے نا ۔۔۔ خدا نے اس سے تمھارا بدلہ لے لیا ہے۔ اس کی بہن کسی کے ساتھ بھاگ گئ ۔۔۔۔!اب وہ منہ چھپائے گھوم رہی ہے اور فیض کو تو کوئ لڑکی بھی نہیں دیتا نکاح کے لیے۔
بہت افسوس ہوا سن کر،اللہ سبھی نوجوانوں کو ہدایت دے ۔ رباب نے بالکل تھمے ہوئے سے لہجے میں کہا تھا۔
مکافات عمل اٹل ہے۔ کچھ معاملات کی سزا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے۔۔۔ جو توبہ کرتا ہے وہی راہ پاتا ہے اور جو تکبر سے منہ موڑتا ہے وہ گمراہ کردیا جاتا ہے ۔۔۔ خیر اللہ رحم کرے امت کے حال پر۔ چلو میں نکلتی ہوں مجھے لیکچر لیناہے حیاڈے پر ۔۔۔ اللہ حافظ ۔۔” رباب نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔ اور تلاوت قرآن میں مشغول ہوگئ۔ لا تقربوالزنی۔۔۔ انہ کان فاحشہ و ساء سبیلا۔