الٰہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس یشونت ورما کے تبادلے کو عدلیہ کے نظام پر ایک اور سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔ بار کے صدر انل تیواری نے 24 مارچ کو الٰہ آباد میں منعقدہ ایک اجلاس میں کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر جسٹس ورما کے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کو قبول نہیں کریں گے۔نہ آج اور نہ مستقبل میں،کیونکہ یہ عدلیہ کے بدعنوان ججوں کو بچانے کی ایک روایت بن چکی ہے۔ان کے اس سخت مؤقف نے عدلیہ میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور غیرشفافیت کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ انہوں نے حکومت اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ جسٹس ورما کے خلاف نہ صرف سی بی آئی اور ای ڈی کی تحقیقات شروع کی جائیں بلکہ ان کے مواخذے کی کارروائی بھی فوراً کی جائے۔
عدلیہ،جو قانون اور انصاف کی محافظ سمجھی جاتی ہے،آج خود ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ پر بھاری مقدار میں نقدی کی برآمدگی نے نہ صرف عدلیہ کی ساکھ پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ اس کے دائرۂ اختیار اور خوداحتسابی پر بھی شدید ضرب لگائی ہے۔ یہ واقعہ محض ایک فرد کی بدعنوانی نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی نشاندہی کرتا ہے جو اندر ہی اندر گل سڑ چکا ہے۔ عدلیہ میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی نے عوامی اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قانون کے رکھوالے خود ہی قانون توڑنے لگیں تو پھر انصاف کہاں سے میسر آئے گا؟
یہ سنگین معاملہ 14 مارچ کو اس وقت سامنے آیا جب دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس یشونت ورما کی دہلی میں واقع سرکاری رہائش گاہ پر آگ بھڑک اٹھی۔ فائر بریگیڈ نے آگ پر قابو پایا،لیکن جب تحقیقات ہوئیں تو وہاں سے جلی ہوئی نقدی کے تھیلے برآمد ہوئے۔ حیران کن طور پر،اس واقعہ کی اطلاع دہلی پولیس کمشنر نے 15 مارچ کو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو دی،جنہوں نے فوری طور پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو اس معاملے سے آگاہ کیا۔ اس کے باوجود،سپریم کورٹ نے 21 مارچ تک خاموشی اختیار کیے رکھی اور اس معاملے کو افواہ قرار دینے کی کوشش کی۔ جب میڈیا میں خبریں پھیلیں اور عوامی دباؤ بڑھا تو عدالت عظمیٰ نے جسٹس ورما کے تبادلے کا حکم دیا اور انہیں الٰہ آباد ہائی کورٹ بھیج دیا۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ جسٹس ورما کا نام 2018 میں ایک سنگین مالی گھوٹالے میں بھی سامنے آ چکا تھا۔ 2018 میں سی بی آئی نے سمبھولی شوگر مل نامی کمپنی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس میں الزام تھا کہ کمپنی نے کسانوں کے نام پر 148.59 کروڑ روپے کے قرض حاصل کیے،مگر بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ کسانوں کی شناخت جعلی تھی اور تقریباً 97.85 کروڑ روپے کا نقصان سرکاری بینک کو پہنچایا گیا۔ حیرت انگیز طور پر،اس کمپنی کے نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جسٹس یشونت ورما خود تھے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ کا ضمیر اس معاملے سے لرز کر رہ گیا ہے اور اس نے تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن جیسے ہی سی بی آئی نے 2024 میں اپنی تحقیقات کو آگے بڑھایا،سپریم کورٹ نے اسے روک دیا۔ اب جبکہ جسٹس ورما کے گھر سے نقدی برآمد ہوئی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیوں کی؟
یہ المیہ ہے کہ جس عدلیہ پر قوم کو سب سے زیادہ اعتماد ہونا چاہیے تھا،وہ آج خود بدعنوانی کا گڑھ بنتی جا رہی ہے۔ عدالتی نظام میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عالم یہ ہے کہ عدلیہ کے ٹھیک ناک کے نیچے،اسی کے احاطے میں،10 روپے کے اسٹامپ پیپر کو 50 اور 100 روپے میں بیچا جا تا ہے اور اسی پر جمع کرائے گئے حلف ناموں کی عدلیہ خود تصدیق کر رہی ہے۔ اگر انصاف کے سب سے بڑے مندر میں ہی بدعنوانی کا بازار گرم ہو تو پھر عام شہری کہاں جائے؟
سپریم کورٹ کا یہ موقف کہ جسٹس ورما کا تبادلہ کسی سزا کے طور پر نہیں کیا گیا بلکہ انتظامی فیصلے کے تحت کیا گیا،عوام کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اقدام سزا نہیں تو پھر بدعنوانی میں ملوث ایک جج کو ایک اور عدالت میں بھیجنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ عدالتی نظام کے اندر بدعنوان عناصر کو تحفظ فراہم کرنے کا ایک حربہ نہیں؟ کیا یہ عدلیہ کی شفافیت کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ اگر عام سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر فوری کارروائی ہو سکتی ہے تو پھر عدلیہ کو استثنیٰ کیوں حاصل ہے؟
یہ معاملہ صرف ایک جج کی بدعنوانی کا نہیں بلکہ پورے عدالتی نظام کی ساکھ کا ہے۔ اگر عدلیہ کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز افراد کو بدعنوانی کے سنگین الزامات کے باوجود بھی صرف تبادلوں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جاتا رہاتو پھر قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکل جائے گا۔ انصاف صرف وہ نہیں جو نظر آئے،بلکہ انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔ جب سپریم کورٹ خود بدعنوانی کی پردہ پوشی میں ملوث ہو جائے تو پھر عوام کا عدلیہ پر اعتماد کیسے بحال ہوگا؟