پروفیسر عتیق احمدفاروقی
اسرائیل اورلبنانی شدت پسند گروپ جسے اسرائیل اورمغربی ممالک دہشت گرد قراردیتے ہیں، حزب اللہ کے درمیان گزشتہ تقریباً 14ماہ سے جاری جنگ کو روکنے پربنے اتفاق کا سبھی ممالک بھلے ہی خیرمقدم کررہے ہوں ، لیکن یہ بہت امیدافزاں نہیں ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن تو اس قرار کو کشیدگی کا مستقل خاتمہ بتارہے ہیں، لیکن موجودہ حالات میں حزب اللہ سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ خاموش بیٹھ جائے گا۔ وہ مصلحتاً کچھ قدم پیچھے ضرور ہٹ رہاہے لیکن اپنی طاقت جٹاکر وہ دوبارہ اسرائیل پر حملہ کرسکتاہے۔ دراصل حزب اللہ کے نمودار ہونے کا سب سے بڑا سبب اسرائیل کی فلسطینیوں پر زیادتی ہے۔ اس تنظیم نے لبنان کے شیعہ فرقہ کے لوگوں کو اسرائیل کے خلاف متحدکیالیکن مغربی ایشیاء کے تمام فلسطینیوں کا تحفظ اس کا بنیادی مقصد رہاہے۔ اسرائیل فلسطینیوں پر کسی نہ کسی بہانے تقریباً 70برسوں سے ظلم وزیادتی کرتارہاہے، لیکن گزشتہ برس اکتوبر سے جب حماس نے اس کی زیادتیوں سے تنگ آکر تل ابیب پر حملہ کرکے قریب ڈھائی سواسرائیلیوں کا قتل کردیا تو اسرائیل نے غزہ پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ، دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسرائیل کے صیہونیوں نے غزہ کے قریب 45ہزاربے گناہ شہریوں (جس میں 70فیصد خواتین اوربچے تھے)کا جس بے دردی سے قتل عام کیا اس سے ثابت ہوگیاکہ وہاں کے وزیراعظم ، کابینہ کے ارکان اورفوجی افسران سے بڑا ظالم ،بے رحم اورمردہ ضمیر رکھنے والے افراد دنیا کی معلوم تاریخ میں نہیں ملیں گے۔ دوسری طرف امریکہ اوردوسرے مغربی ممالک نے جس انداز میں اسرائیل کی حمایت کی اس سے بھی ان لوگوں کی انسانیت کے مسیحا ہونے کی شبیہ پامال ہوگئی۔ امریکہ کی اس ریاکاری پر صرف روناآتاہے جب ایک طرف وہ اسرائیل کی بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے پر مذمت کرتاہے اوردوسری طرف ان بے گناہوں پر بم گرانے کیلئے نہ صرف وہ اسلحہ فراہم کرتاہے بلکہ واضح بھی کرتاہے کہ اسرائیل جو حملے کررہاہے وہ اپنے دفاع میں کررہاہے اوراسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل کی کارروائی کے خلاف جب بھی سلامتی کونسل میںکوئی تجویز آئی امریکہ نے اس کو ویٹو کردیا۔ لبنان میں جنگ بندی کی تجویز کو اسرائیل نے اس لئے منظور کرلیاہے کیونکہ حزب اللہ کے ڈرون حملوںنے اسرائیلی شہریوں کا جینا دوبھر کردیاتھا۔ دراصل حماس کے مقابلے میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑاہے لیکن اپنی دفاعی کمزوریوں کی وجہ سے حماس کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کیلئے تیار نہیں ہے۔
1980 کی دہائی میں لبنان کی خانہ جنگی کے دوران حزب اللہ کا جنم ہوا۔ اس تنظیم کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ جنوبی لبنان حزب اللہ کا مرکز رہاہے جہاں سے شمالی اسرائیل کافی نزدیک ہے اوروہ رہائشی علاقہ بھی ہے۔ فلسطینیوں کے تحفظ کے علاوہ حزب اللہ نے لبنان میں اقتصادی اورسیاسی طور پر حاشیہ پر پڑی شیعہ آبادی کو منظم کرنے کا بھی کام کیا۔ اس کا مطالبہ شیعہ فرقہ کی سیاست میں برابرکی شراکت داری بھی رہاہے۔ حزب اللہ 1985 لگاتار حملہ کرتارہا جب تک کہ اسرائیل نے اپنی فوج واپس نہیں بلالی۔ 1992میں خانہ جنگ کے خاتمہ کے بعد حزب اللہ پارلیمانی سیاست میں داخل ہوا اور128؍نشستوں والی اسمبلی میں اُس نے 8؍نشستیں جیتیں۔ اس طرح اس گروپ نے سیاسی حیثیت حاصل کرلی۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو لٹانی ندی کے پیچھے ڈھکیلنے کیلئے 1992 اور1996 میں حملے کئے مگر نتیجہ صفر رہا۔ حالانکہ جولائی 2006 تین اسرائیلی فوجیوں کے قتل کے بعد اس نے حزب اللہ کے خلاف سخت جوابی کارروائی شروع کردی۔ جس میں کئی سو حزب اللہ کے جنگجو مارے گئے۔ بعدازاں ایران کی مدد سے حزب اللہ نے اپنی تنظیم کو مضبوط کیا۔اس نے سرنگوں کی تعمیر کی اورڈھیر سارے اسلحے اورمیزائلیں جٹالیں۔ مانا جاتاہے کہ اس کے پاس قریب 50ہزار لڑاکو ؤںکی فوج ہے جس میں سے 20ہزار سرگرم ہیں اور30ہزار ریزروہیں کیونکہ بعد کے اوائل میں لبنان کے اندر سنی جیسے تمام گروپ کمزور پڑ گئے اس لئے حزب اللہ کو اپنی طاقت بڑھانے کا موقع ملا اوروہ یہاں کا ایک بااثر کھلاڑی بن گیا۔ اسرائیل کی مصر اورشام کے ساتھ جنگ ہوچکی ہے اور1967 و1973 کی جنگ میں دونوں ممالک کی کمزوری ظاہر ہوچکی ہے۔ اگراس خطے میں حزب اورحماس جیسے گروپ نہیں پیدا ہوتے تو فلسطینیوں کا وجود خطرے میں پڑ جاتا۔ حماس کو بھی اسرائیل اورمغربی ممالک دہشت گرد قراردیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ غزہ میں حماس الیکشن جیت کر برسر اقتدار ہواہے۔ اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ میں ان کے قائدین اوروزرا کا قتل کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ دہشت گرد تو اسرائیل اوروہ مغربی ممالک کہے جانے کے مستحق ہیں جن کی حمایت سے اسرائیل نے غزہ میں اوربعد میں لبنان میں بے گناہ شہریوں کا قتل کیاہے۔ جس میں 70فیصد عورتیں اوربچے شامل ہیں۔
اسرائیل حماس کو جڑسے ختم کرنے کا ہدف طے کرکے غزہ پر حملہ شروع کیاتھا لیکن اپنے اس مقصد میں وہ پوری طرح ناکام رہا۔ اس جنگ میں ایک بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے خصوصاً جب غزہ میں زمینی جنگ کا آغاز ہوا۔ اسرائیل اپنے یرغمالیوں کو چھڑانے کے مقصد میں بھی ناکام رہا۔ اس لئے اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ اس جنگ میں اسرائیل کی شکست ہوئی ،یہی سبب ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ تو جنگ بندی کیلئے تیار ہوگیا لیکن غزہ میں جنگ بند کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ لبنان میں اسرائیل اس لئے جھکا کیونکہ حزب اللہ نے براہ راست تل ابیب پر حملہ کرنا شروع کردیاتھا اوروہاں کے شہریوں کا جینا دوبھر ہوگیاتھا۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے نتین یاہو کو جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیاہے ۔ یہ اوربات ہے کہ جب تک امریکہ کا ہاتھ اسرائیل کے سرپر ہے تب تک وہاں کے وزیراعظم کا کوئی بال بیکابھی نہیں کرسکتا۔
رہی ہمارے ملک ہندوستان کا مغربی ایشیاء کی جنگ میں کردار نبھانے کی بات تو اس معاملے میں اس کا کردار بیحد محدود ہے۔ اس جنگ بندی کے قرار کو انجام دینے میں امریکہ اورفرانس پوری شدت سے لگے ہوئے تھے۔ جبکہ ہندوستان زیادہ سے زیادہ اس میں بطور امن فورس اپنا کردار نبھاتارہاہے۔ حالانکہ سچ یہ بھی ہے کہ دونوں فریقین بھلے ہی ہمارے ملک پر یقین رکھتے ہوں لیکن اقوام متحدہ کے امن مہم کا کردار بہت محدود ہوتاہے۔ پھر لبنان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاسی عدم استحکام کافی عرصہ سے ہے۔ وہاں گزشتہ کئی برسوں سے کوئی صدر تک نہیں ہے۔ وہاں کی معیشت خستہ حال ہے ۔ا س ملک اوریہاں کے لوگ اب تک اپنی شناخت کیلئے بھی جوجھ رہے ہیں۔ حالانکہ اس جنگ بندی کو قائم رکھنے کا دباؤ بھی لبنان پر بہت زیادہ ہوگا کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے جوجھ رہے اس ملک کو عالمی برادری کی طرف سے تبھی اقتصادی مدد مل سکتی ہے جب یہاں کوئی مستحکم حکومت بنے۔ دوسری طرف اسرائیل پر ایران کے حملہ کا خطرہ بنا ہواہے اورایران حزب اللہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتاہے، وہ اسے ہر طرح سے مدد فراہم کرے گا۔ اس خطے میں دیرپا امن تبھی قائم ہوسکتاہے جب اسرائیل کا حماس کے ساتھ بھی جنگ بندی کا قرار ہوجائے اورامریکہ ومغربی ممالک ایماندار اورانصاف پسند بن جائیں۔